Saturday, March 8, 2014

خواتین کا عالمی دن اور امن مذاکرات


خواتین کا عالمی دن اور امن مذاکرات

 اقوام متحدہ   کی طرف سے   پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتاہے  ۔ اس دن   حکومت سمیت ، سول سوسائٹی اور دنیا بھر کا میڈیا    خواتین کو معاشرے میں با اخیتار بنانے کیلئے تجدید عہد کرتانظر آتاہے ۔ دنیا میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے   کئی تحریکیں شروع ہوئیں اور  ہر تحریک نے  اس حوالے سے کچھ نا کچھ کردار  ضرورادا کیا ۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ  کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار وہاں کے محروم اور پسے ہوئے طبقے کو   با اختیار کرنے اور مساوی حقوق و  مواقع فراہم کرنے میں ہی مضمر ہے۔  جیسا کہ   معروف سماجیات کے ماہر فورئیر نے کیا خوب کہا تھا کہ  کسی بھی سماج کی ترقی و خوشحالی کا  اندازہ  اس سماج یا معاشرے میں رہنے والی خواتین کی حالت و کیفیت سے   لگایا جا سکتا ہے۔  اسی طرح بالشوک کے  انقلابی  راہنما ولادیمیر لینن  نے کہا تھا کہ    ہماری  محنت کش  اور مزدور خواتین  بہترین  طبقاتی جنگجو ہیں اور  دنیا کی کوئی بھی تحریک خواتین کی شعوری اور عملی مداخلت کے  بغیر کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ہے۔   مارکس اور اینگلز کے مطابق   طبقاتی         سماج میں پیداوار، پیدا کرنے والے پر غالب ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے  معاشرے کی تشکیل میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور معاشرے میں  اپنے مثبت کردار کیلئے کئی تحریکوں میں کامیاب کردار  کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  خواتین کی جہد مسلسل اور انتھک   کوششوں کے نتیجے میں  1910 میں  ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگ میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس  منعقد ہوئی جس میں  تقریبا" 17 مختلف ممالک کی سو کے قریب  خواتین  نے شرکت کی اور    اس دن کو عورتوں کے حقوق ، ان پر ہونے والے مظالم اور استحصال  کے خاتمے  کے عنوان سے عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔  اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ خواتین پاکستان میں  تقریبا" آبادی کانصف ہیں  اور ان کی حالت زار طبقاتی  فرق، جاگیردارنہ نظام، غیر منصفانہ  اقتصادی نظام ، رجعت پسند  دینی طبقے کی بدولت  قابل رحم نظر آتی ہے۔  ایک سماجی تنظیم کی طرف سے کیے گئے محتاط سروے کے مطابق  پاکستان میں اس وقت  لگ بھگ 43 فیصد  دیہی خواتین  زرعی کام کاج کے عمل سے وابستہ ہیں اور کھیتوں میں ہونے والی سر گرمیاں انہی خواتین کی بدولت  ہی سر انجام پاتی ہیں ۔  جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع میں تقریبا" 12 لاکھ کے  نزدیک  خواتین کا م کرتی ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق   کوئی 25 فیصد کےقریب   خواتین کھیتوں میں فیملی ورکرز کی حیثیت سے کا م کرتی ہیں  جبکہ ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا ۔  پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں خواتین کو  اپنے روز مرہ کے کام کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عورتوں پر ہونے والے تشدد کی داستانیں کبھی کبھار میڈیا  یا سول سوسائٹی کے توسط سے عام و خاص کے علم میں آ جاتی ہے  ورنہ ہزاروں داستان   چار دیواری کی اند ر ہی مدفن ہو جاتی ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کے ایک بہت ہی تاریک اور   شرمناک پہلو  کی عکاسی کرتاہے۔  گھریلو تشدد اور    جنسی طور پر خواتین کو  ہراساں کرنا ہمارے معاشرے مٰیں  کو ئی بڑا جرم نہیں ہے۔  اسی طر ح غیرت کے نا م پر قتل کرنا  بھی ایک عام سا عمل ہے۔ روزنامہ نوائے وقت کی  انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال   اندازا" 500 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔  سمینار میں شریک  امریکہ کی  ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی  کے  ماہر صحت ڈاکٹر معظم نصراللہ کے مطابق  پاکستان میں پچھلے  چار برس کے   دوران 1957 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔     اسی طرح  گذشتہ ہفتے  لاہور میں  جوہر ٹاؤن   کی رہائشی   عورت نے غربت ، اپنے شوہر اور  سسرال کے رویے سے تنگ آ کر اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا اور ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہو ا کہ اس کا  شوہر  اپنی بیوی سے جسم فروشی کروانا چاہتا تھا اور دبئی میں ثقافتی طائفے میں بھیجنا چاہتا تھا  تاکہ  وہاں سے جسم فروشی کی بنا پر بھاری رقم وصول کر پائے۔  یہ ہے وہ ہمارا سماجی شرمناک چہرہ ہے ۔   پاکستان میں عورتوں کے حقوق  کا مسئلہ ہمیشہ  ہی   نظر انداز رہا ہے اور عورت پر تشدد  ہماری غیرت اور انا   کا  مسئلہ رہا ہے  لیکن پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر  بڑی قدغن    ضیاء الحق کے دور آمریت میں  پوری طرح لگائی  گئی اور  نام نہاد آمر نے  اسلام کے مقدس نام کو استعمال کر تے ہوئے  انسانیت سوز کالے قوانین مرتب کئے ۔ ضیاء الحق کی  فرسودہ اور رجعت پسند  پالیسیوں نے پاکستان کے سماجی و ثقافتی  اقدار کو  نہ صرف گھاہل کیا بلکہ   بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا۔ آج کی موجودہ حکومت جو کہ پاکستان کے روشن خیال  حلقے کی نظر مٰیں     ضیاء الحق کی وارث  سمجھی جاتی ہے     ایک بار پھر رجعت پسند، عورتوں کے حقوق کو پامال کرنےوالی اور ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے والی قوتوں کے ساتھ  مصروف مزاکرات ہے۔   کون نہیں جانتا کہ  یہ نام نہاد  مجاہدین اور رجعت پسند طالبان  کس طرح   افغانستان اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں انسانیت سوز کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں  اور  کس طرح خواتین کے مسلمہ حقوق کو سلب کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ سوات ، مالاکنڈ، خیبر ، کرم   ایجنسی  اور خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں ، ہسپتالوں کو دھماکوں سے  تباہ  کیا  ، عورتوں کو  چار دیواری  میں مقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر علم کے دروازے بند کئے اور خود ساختہ شریعت کی آڑ میں شرعی حد نافذ کرتے رہے ہیں سب  کالے کرتوت  آج  بھی  پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر  موجو د ہے۔ آج جب کہ پوری دنیا عورتوں کے حقوق اور سماج میں ان کے جائز  معیار کے حصول کیلئے  عہد کر رہی ہے جبکہ ہم ان  عہدون پیماء کے برعکس  طالبان  کی شریعت  کے نفاذ کو عملی شکل دینے کے لئے محو گفتگوہے۔

No comments:

Post a Comment