Thursday, March 13, 2014

پاکستان میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان

پاکستان میں منشیات کا بڑھتا ہوا  رجحان


اقوام متحدہ کے ادارے یونائٹڈ نیشن آفس اور ڈرگ کرائم  ، نار کوٹکس کنٹرول ڈویژن  اور پاکستان بیور آف  اسٹیٹکس   نے  پاکستان میں منشیات   کے استعمال   کے حوالے سے کیے گئے سروے کی مشترکہ  سالانہ رپورٹ برائے سال  2013 ءجاری کی ہے۔  اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں  تقریبا" 60 لاکھ  70 ہزار افراد  منشیات کا استعمال کرتے ہیں  ۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ  منشیات استعمال کرنے والوں میں اکژیت  نوجوانوں کی ہے   جس میں 15 سال سے لے کر  64 سال کے افراد منشیات کے  عادی ہیں اور ان مٰیں سے  16لاکھ افراد جن میں خواتین کی اکثریت ہے وہ  ادویات  کو  بطور  نشہ استعمال کرتے ہیں ۔   رپورٹ کے مطابق پاکستان  ایچ آئی وی کے حوالے سے دنیا کے پہلے پندرہ ممالک میں شامل ہے اور  مجموعی طور پر 20 فیصد خواتین ہیں جو  منشیات کا استعمال کرتی ہیں ۔  برطانوی خبر رساں ادارے   کی خبر   کے مطابق  اقوام متحدہ کے ادارہ   یونائٹڈنیشن آفس اینڈ ڈرگ کرائم  کے پاکستان میں نمائندے  سنیرر گویڈز کا  کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں ایچ آئی وی کے بارے میں مفصل ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے اور  یہ  سروےمعلومات  پاکستان میں منشیات  کے استعمال کو روکنے اور علاج  کے حوالے سے کافی سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا  ہے کہ اس سلسلے میں طویل منصوبہ بندی،  سرمایہ کاری اور مربوط کوششوں کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ادارہ کو حکومت پاکستان کی بھر پور معاونت کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ منشیات  کا زیادہ استعمال  خیبر پختون خواہ  صوبے مٰیں ہے  اور  پاکستان میں منشیات  کی ترسیل کے بڑےراستے بھی خیبر پختون خواہ اور  بلوچستان کے افغانستان  سے معلقہ سرحدی علاقے ہیں۔۔    برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق  افغانستان  اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں  دو سے  ڈھائی لاکھ  خاندان   پوست کی کاشت کرتے ہیں جس سے ان خاندانوں کو اوسطا" تین سے چار ہزار امریکی ڈالر سالانہ آمدنی حاصل ہوتی ہے  جو کہ افغانستان جیسے غریب ملک  کیلئے ایک   خطیر رقم ہے۔  توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کا مغربی بارڈر     انتہائی غیر محفوظ ہے اور وہاں حکومتی رٹ  بالکل نہیں ہے   جس کی بڑی وجہ طالبان کا افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں  موجودگی ہے جو نہ صرف پاکستان کی ریاستی رٹ کو چیلنج  کیے ہوئے ہیں بلکہ  منشیات کے کاروبا مٰیں بھی ملوث ہیں ۔ سینٹرل  ایشیاء آن لائن  نے اپنی ایک رپورٹ میں  خیبر میڈیکل کالج   کے  شعبہ کیمیائی تجزیہ اور فورنزک میڈیسن کے ایک کیمیائی تجزیہ کار پرویز خان  کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ   خودکش مشن پر روانہ ہونے سے قبل وہ ہیروئن، افیون، اسٹیرائڈز اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اسکے ثبوت   کے طور پر  پشاور کے نزدیک ادیزئی قومی لشکر اور پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے ایک متوقع خودکش بمبار کا معائنہ کیا گیا۔ اس کے خون میں ہیروئن کی بڑی مقدار تھی جو چند منٹ قبل انجکشن کے ذریعے لی گئی تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارے نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ  پاکستان اور افغانستان میں طالبان  اور دیگر دہشت گردگروپس اپنی تخریبی کارروائیوں کیلئے  منشیات کی آمدنی کو استعمال کر رہے ہیں  اور سال 2012 تک طالبان کی منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی  70 کروڑ ڈالر کے قریب تھی ۔  جس کا آنے والے سالوں میں بڑھنے کا  اندیشہ ہے۔  اس حوالے سے افغانستان میں موجود نیٹو فورسز اور افغان فوج بھی  منشیات  کی کاشت کو روکنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہی ہیں جو بہت  تشویش ناک امر ہے جبکہ پاکستان میں توحکومت وقت طالبان کے  ساتھ  مذاکرات کے عمل میں مصروف نظر آتی ہے اور حکومتی  رٹ کو بحال کرنے بجائے  ان علاقوں سے  طالبان کے مطالبے جس میں فوج کی  واپسی جیسی تجاویز    شامل ہیں پر غور و غوص کرتی ہو ئی نظر آتی ہے۔   اگر وہاں طالبان اور دیگر جرائم  پیشہ تنظمیں  طاقت ور ہو گئی تو پھر یہ منشیات  کی پیداوار اور  کاروبا ر  خطر ناک حد تک بڑھ سکتا ہے ۔ حکومت وقت کو مزاکرات    سے قبل ان پہلو وں کا بغورجائزہ لینا چاہیے آیا کہ  طالبان جو کہ قتل و غارت اور منشیات جیسے  گھناونے  جرائم میں ملوث  ہیں کیا وہ مزاکرات کے بعد ان سرگرمیوں کو ترک کر دیں گے ،  کون اس بات کی  گارنٹی دے گا   کہ وہ مزاکرت کے بعد   شریفانہ طرز عمل  اختیار کرپائیں گے۔  اسی طرح پاکستان  دیگر  حصوں میں منشیات کا بڑھتا ہو رجحان   بھی ایک بہت ہی غور طلب مسئلہ ہے  اور اس حوالے سے دیکھا جائے تو حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات نا ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہو نے والی اٹھارہویں ترمیم کے بعد  صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کو  منتقل کر دیا گیا ہے  جبکہ اس حوالےسے صوبائی حکومتوں کی استعداد کار  بڑھانے کی کو ئی مربوط کو شش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اس حوالے سے   کو ئی لائق تحسین نظر نہیں آتی ہے۔  ۔ جرمن خبر راساں ادارے کے مطابق  اس مسئلے  کا  ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ   حکومت  کی مجرمانہ غفلت اور معاشرتی بے حسی کی بدولت اتنی بڑی  تعداد جو منشیات جیسی  لعنت کی عادی بن چکی  ہے  کے لئے علاج و معالجے اور بحالی کی سہولتیں بالکل ہی نا کافی نظر آتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے   حکومتی سطح پر صرف دو  چار  مراکز موجود ہیں جو کہ صرف بڑے شہروں میں ہیں   اور نجی ادارے بھی اس سلسلے میں کام ضرور کر رہے ہیں مگر وہاں اس لعنت سے چھٹکارے پانے  کیلئے  علاج اتنا مہنگا ہے کہ وہ عام آدمی وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔اس رجحان کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں    بھی اس مسئلہ کی سنجیدگی کا احساس کریں اور اس پر قابو پالنے کیلئے  مناسب وسائل و اقدامات کو بروکار لائیں 

No comments:

Post a Comment