Wednesday, February 26, 2014

ایک اورخطر ناک حماقت

 ایک اورخطر ناک  حماقت

پاکستان جو اس وقت دہشتگردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے یہ سب کچھ اچانک نہیں  ہوا بلکہ یہ آگ ہمارے ناعاقب اندیشن حکمرانوں  کی سابقہ کئی دہائیوں پر محیط    اپنی  غلط  داخلی اور خارجی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے  جو انہوں نے  بیرونی  آقاوں کے حکم پر نافذ کیں اور پیارے ملک میں اس  شجر خبیثہ کی آبیاری کی اور آج وطن عزیز اس کے چبھنے والے کانٹون کی وجہ سے آگ و خون میں تر نظر آ رہا ہے  جیسا کہ شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔
یونہی بےسبب تو نہیں ہیں چمن کی ویرانیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شر سے ملے ہوئے
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ  پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان آمریت کے دور میں ہونے والے غلط فیصلوں سے ہوا ۔ جیسا کہ ایوب خان کے دور میں ہونے والی جنگ اور پاکستان کا امریکی حکومت کی طرف جھکاو پھر سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے  اس کے بعد یحیی خان  کے دور میں پھر جنگ اور  سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات ۔ اسی طرح  ضیاء الحق کا دور جو کہ پاکستان کی تاریخ کا بد ترین دور تھا جس نے ملک پاکستان   نظریاتی اور جغرفیاتی   جڑوں کو دیمک کی طرح کھو کھلا کر  دیا اور  پھر رہی سہی کسر پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں نے پوری کر دی ۔  اگر بنظر غور دیکھا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ  جنرل ضیاء  پھر اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے جس طرح طالبانی فکر کی آبیاری کی اور افغانستان کو فتح کرنے کی  سر توڑ کوششیں کی وہ سب تاریخ کے اوراق پر عیاں نظر آتی ہیں اور ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں سوچا کہ جو آگ و خون کا بازار ہم نے افغان بھائیوں کیلئے گرم کر رکھا ہے اور کسی وقت یہی اپنے ملک کی طرف واپس پلٹ آیا تو پھر کیا ہو گا۔  کہا جاتا ہے کہ عقل مند اپنی غلطی سے سیکھ کر اسے دوبارہ کبھی نہیں دہراتا ہے ۔ حالانکہ ہم اپنی کو تاہیوں سے پہلے ہی  وطن عزیز کو دو لخت کر چکے تھے مگر چونکہ ہمیں  اسلام کا قلعہ کہاگیا تھا پس اسلام کی بقا ء کا ٹھیکہ بھی حضرت امیر المومنین ضیاء الحق نے اٹھایا اور امریکی و سعودی احکامات کی روشنی میں اسلام دشمن  روسی نظام  کیمونزم کو نابود کرنے کی بھاری ذمہ داری اپنے نحیف کندھوں پے اٹھائی اور جو زہریلی فصل کو اگایا تھا وہی جب پک کر تیار ہوئی تو  اپنی کی سر زمیں کو لہولہان کرنا شروع کر دیا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران پھر بھی نہیں سیکھ پائے اور ابھی تک اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں یا دشمن جو کہ اب تک ہزاروں بے گناہ معصوم پاکستانیوں کا  قتل عام کر چکے ہیں۔  عقلمند وہی ہوتا ہے جو اپنے دشمن سے ہوشیار اور چوکنا ہوتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں  ایسی احمقانہ   روش اختیار کیے ہوئے ہیں کہ  ان کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔  یہ بات انٹرنیشنل میڈیا اور لوکل میڈیا میں بھی بار بار دوہری جا رہی ہے کہ سعودی عرب  پاکستان سے جوہری اور دیگر اسلحہ خریدنے کا خواہش مند ہے جو کہ ایران کے خلاف اپنی سکیورٹی کی  مضبوط بنانے کیلئے  رکھنا چاہتا ہے ۔ اسی طر ح ایک ڈیل کا تذکرہ ایک عرب جریدہ نے کیا کہ  سعودی عرب شامی حکومت کے خلاف  برسر پیکار باغیوں کیلئے طیارہ شکن میزائل اور ٹینک شکن آلات خریدنا چاہتا ہے تاکہ  شام میں سر گرم دہشتگردوں  کی قوت میں اضافہ کیا جا سکے۔ ، اس سلسلےمیں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف  کا حالیہ دورہ  سعودی عرب پھر سعودی وزیر خارجہ کا دورہ پھر اس کے بعد سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان  جو  بظاہراسی ڈیل کا ایک حصہ  لگتاہے ۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ڈیل تقریبا" اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان اسے بے بنیاد پراپیگنڈہ قرار دے رہی ہے  لیکن پاکستان کے وزیر اعظم اور سعودی ولی عہد کی مشترکہ پریس کانفرنس جس میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور شام میں ایک عبوری حکومت کی  تشکیل کا مطالبہ  اور بشاراسد کی معزولی بھی شامل تھی سے اس ڈیل کی بازگشت کو تقویت مل رہی ہے-سعودی عرب پاکستان کو شام کی جنگ میں عملی طور پر دھکیلنا چاہتا ہے جو کہ  پاکستان کے ہمسایہ ممالک اور دیگر عرب  اور غیر عرب ممالک  خصوصا" شام،لبنان، عراق ، ایران ، روس ، اور چائینہ    جو کھل کر سلامتی کونسل میں شام کی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں کو براہ راست ہماری   دشمنی پر اکسا رہا ہے۔   لگتا یہی ہے کہ میاں صاحب سعودی باد شاہوں سے اپنی دیرینہ قربت اور احسان مندی   کی وجہ سے انکار نہیں کر پا رہا۔ جس کی تازہ مثال  پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے عظیم الشان  منصوبے کو امریکہ اور خاص کر سعودی عرب کی مداخلت کی وجہ سے پس پشت ڈال دیاگیا ہے۔ ایک اور خبربھی گرم ہے کہ سعودی عرب پاکستان  سے 1500 ہزار فوجی اپنی شاہی سکیورٹی کیلئے  کرائے پے طلب  کرنا چاہتا ہے  جو کہ یقینا" سعودی شاہی خاندان کے  غیر انسانی اقدامات کےلئے استعمال ہو سکتے ہیں جو  سعودی عرب  کے اندر اٹھنے والی شہری آوازوں کو دبانے  یا پھر احتمال  یہ ہے کہ یہ فورس بحرین میں شہری انقلاب کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ پاکستانی عوام  یہ سوال پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ حکومت وقت نے ان کی جان و مال کی حفاطت کی بھاری ذمہ داری کیا ادا کر دی ہے ، کیا  ملک کی سکیورٹی کو در پیش چیلنجز کو پورا کر دیا گیا ہے، کیا یہ اقدامات پاکستان کی پالیسی جیو اور جینے دو سے تال میل کھاتے ہیں ۔  لہذا  موجودہ حکومت کو  چاہیے کہ وہ کسی فرد کی شخصی  خوشنودی کیلئے ملک کے مستقبل کو داوو پر لگانے سے اجتناب کرے اور اس قسم کی خطر ناک اور   سنگین حماقت کا  ارتکاب کرنے سےباز آ جائے کیونکہ وطن عزیز اب اس قسم کی احمقانہ  اقدامات کا متعمل نہیں ہو سکتا۔

Monday, February 24, 2014

یہ وہ سحر تو نہیں !!

یہ وہ سحر تو نہیں !!

تحریک انصاف  کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن 2013 میں نوجوان طبقے کو اپنے جوش خطابت اور منفرد انداز کے جلسوں جن میں پوپ میوزک کے اسٹاز آ کر اپنے فن کا مظاہرہ  کیاکرتے تھے  اور پا کستانی خصوصا" کے پی کے اور  پنجاب کے نوجوانوں کو  خوب متاثر کیا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے تحریک  انصاف  کی انتخابی مہم میں دل کھول کر ڈونیشن دئیں۔ عمران خان جو ایک روشن خیال اور ماڈریٹ طبقے کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے اور پوش ایریاز کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے انتہائی فعال طریقے سے الیکشن میں حصہ لیا بلکہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کو بھی کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ الیکشن کے نتائج بھی تحریک انصاف کیلئے خاصے حوصلہ کن دکھائی دیئے اور مرکز میں34نشستیں بشمول  مخصوص حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختونخواہ  اسمبلی میں بھی اکژیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ  کیاروشن خیال اور تعلیم یافتہ طبقے کے ووٹوں کو حاصل کرنے والی تحریک  انصاف نے ان کی نمائندگی کا حق ادا کرنے میں  کیادر حقیقت    انصاف کیا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت اسکے بر عکس نظر آتی ہے ۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی رجعت پسند ، تکفری سوچ کے حامل دہشتگردوں کی ببانگ دہل حمایت کرنا شروع کر دی اور جماعت اسلامی جو  کہ  سخت  مذہبی خیالات کی حامل جماعت ہے اور جنگجونہ کردار کی مالک  رہی ہے اس کو اپنا نہ صرف  صوبائی حکومت سازی میں اتحادی بنایا بلکہ انہی کی سوچ پر اپنی پالیسیوں کو بھی مرتب کر رہی ہے۔ اس کا واضح ثبوت طالبان کا اپنی مزاکراتی کمیٹی میں عمران خان اور جماعتی اسلامی کے پروفیسر ابراہیم کو اپنا نمائندہ مقرر کرنا تھا۔ جو کہ درحقیقت اس بات کی عکاسی  ہے کہ عمران خان  نے  الیکشن میں ووٹ حاصل کر کے  اور اپنے  بلند بنگ دعووں   کے ذریعے  پاکستان کے روشن فکر اور ماڈریٹ افراد کے ساتھ صریحا" دھوکہ دہی کی ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن جو کہ طالبان کی محبت میں اس قدر اسیر ہیں کہ وہ اب آئین پاکستان کی خلاف کھل کر بات کر نے  والوں کی وکالت کرنے کے ساتھ افواج پاکستان پر بھی زبان دازی کرتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں اس نے اسلام کی مسلمات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر کے تو ہین رسالت اور توہین اہلبیت کا ارتکاب بھی کیا ہے جس پر تمام محبان رسول ﷺ اور  اہلبیت  بشمول سنی  و شیعہ عوام نے اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کا ایسی جماعت کی ہاں میں ہاں ملانے کا مقصد پاکستان کے  روشن فکرعوام کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے کیونکہ طالبان مخالف عوام کی اکثریت نے تحریک انصاف کو دل کھول کر ووٹ دیئے تھے۔ اگر تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ کی کاررکردگی پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی عوام کو کو ئی ریلیف نہیں مل سکا ہے اور وہ نیا پاکستان کا خواب چکناچور ہوتا نظر آ رہا ہے۔  تحریک انصاف کی پذیرائی میں کمی کی  واضح مثال ضمنی انتخابات میں  پشاور میں غلام احمد بلور کی کامیابی اور میانوالی میں عمران خان کو اپنی آبائی نشست سے ہاتھ دھونے پڑے۔ خود تحریک  انصاف میں  الیکشن  میں  دی گئی امدادی  رقوم  کے اخراجات کے اندر بد عنوانی کے الزامات لگنے  کےواقعات منظر عام پر آنے شروع ہو چکے ہیں۔ عمران خان جو کہ پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت تبدیلی کا نشان بن کر ابھرے تھے لیکن افسوس صد افسوس کہ  طالبان کی اندھی حمایت اور اپنی صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب  ان کے اپنے ووٹرز  بقول شاعر  یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ
یہ وہ سحر تو نہیں۔۔!!
عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ وہ ایک ماڈریٹ ، خود مختار اور معاشی طور پر مضبوط پاکستان کی بات کرتے کرتے کیوں اس قدر طالبان کے حامی بن گئے ہین کہ    لوگ اب  ان کو طالبان  خان کا لقب دیتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں اور اس بات کا اقرار   خان  صاحب  خود بھی میڈیا کے سامنے کر چکے ہیں ۔ عمران خان اور پارٹی کے دیگر اکابرین کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ہو گا کہ طالبان کی حمایت در حقیقت ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے کھلی غداری ہے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہچانے کے مترادف ہے ۔  تاریخ  کسی ظالم اور جابر کی حمایت کرنے والوں کو معاف نہیں کیا کرتی ۔ اگر تحریک انصاف طالبان کی حمایت کی پالیسی سے دستبردار نا ہوئی تو اس کا انجام بھی دیگر  شدت پسند مذہبی جماعتوں جیسا ہوسکتا ہے   جن کو  عوام    کی اکثریت   ہمیشہ مسترد کرتی آئی ہے۔     

Sunday, February 23, 2014

پاک فضائیہ اور سکیورٹی فورسزکی شاندارکارکردگی


حکومت نے طالبان کے  ساتھ مزاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا تھا  وہ طالبان کی طرف سے مسلسل  دہشتگرد کارروائیوں کے نتیجے میں  کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔    مزاکرات کو یہ سلسلہ جس کو اول دن سے ہی  عوام پاکستان کا  تعاون حاصل نہیں تھا     عملا" اس وقت  مکمل طور پر رک  گیا  جب طالبان کی طرف سے 2010 میں اغواء کیے گیے  23ایف سی اہلکاروں کو طالبان نے دردناک طریقے سے شہید کر دیا۔  حکومتی  مزاکراتی کمیٹی  نے  مزاکرات کے عمل کو مزید جاری رکھنے سے معذرت کر لی جس کے بعد وزیر اعظم نے آرمی چیف اور پاک  فوج کے اہلکاروں کے ساتھ  طویل مشاورت کے بعد  پاک فضائیہ کو طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی باضابطہ منظوری دے دی ۔ جس کے بعد  پاک فوج ، آئی ایس آئی ، اور پاک فضائیہ نے باہمی مشاورت کے بعد   طالبان کے مخصوص اہداف کو نشانہ  بنانے کی منصوبہ بندی کی  اور   پاک فضائیہ نے وزیر اعظم کی ہدایت کی روشنی میں   شمالی وزیرستان  کے علاقوں حسو خیل، خید خیل ، ایدک  اور خوشحال  کے علا قوں میں اپنی  پہلی کارروائی کا آغاز کیا جس  میں 6 اہداف کو  نشانہ بنایا   جس کے نتیجے میں  47 سے زائد دہشتگرد  ہلاک ہوئے ۔ اس کارروئی کا  پہلا ہدف   کمانڈر عبدالستار  کا مرکز بنا ، دوسرا حملے میں  ازبکستان کے دہشتگردوں کو  نشانہ بنایا گیا  جبکہ تیسرے اور چوتھے حملے کا نشانہ ترکمانستان اور تاجکستان  کے دہشتگرد بنے ۔ اسی طرح  پانچواں  حملہ ٹی ٹی پی کے دہشتگرد  جہاد یار کے ٹھکانے پر کیا گیا جس کے نتیجے میں پندرہ دہشتگردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں ۔ چھٹا حملہ کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈر عبدالرزاق کے مرکز پر کیا گیا  جس میں تیس سے زائد دہشتگردوں کے ہلاک ہو نے کی تصدیق ہوئی ۔   اس کارروائی میں دہشتگردوں کے زیر استعمال بھاری اسلحہ اور بارود بھی تباہ ہو گیا ہے اور   غیر ملکی دہشتگرد  کافی تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں البتہ پانچواں حملے میں جہاد یار اپنے مرکز پر نہ ہونے کی وجہ سے بچ گیا ہے جبکہ مرکز مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے ۔  پاکستان کی سکیورٹی فورسز  نے دوسرے مرحلے میں ہنگو کی تحصیل ٹل اور وسطی کرم ایجنسی کے سرحدی علاقوں در سمند اور تورا وڑی  میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے  دہشتگردوں کے اہم ٹھکانوں کو  نشانہ بنایا ہے جس میں 9 دہشتگرد وں  جسں میں  کالعدم ٹی ٹی پی کے  اہم رہنماء  گل نواز، ارشد اور ولی زمان  کے ہلاک ہونے اور متعدد کے زخمی ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کے چار اہم  ٹھکانے بھی مکمل طور پر تباہ کر دئیے گئے  ۔   تیسرے مرحلے میں  سکیورٹی فورسز نے خیبر ایجنسی کی   وادی تیرہ  میں  گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے  حملہ کر کے 13 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا ۔   ان کارروئیوں کی سب سے اچھی بات جو نظر آئی ہے وہ یہ ہے کی پاک ٖفضائیہ اور سکیورٹی فورسز نے اپنی عمدہ  مہارت  کا برملا  مظاہر ہ کیا  اس پورے  مرحلے میں کسی بھی معصوم شہری کی ہلاکت کی کو ئی خبر نہیں آئی ہے ۔ اس کارروائی نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی گفتگو جو انہوں نے گذشتہ جمعہ کو پشاور فرنیٹئر کور کے ہیڈ کوارٹر کے دورے کے دوران  کی کہ کسی کو پاک فوج کی صلاحیتوں پے شک نہیں ہونا جاہیے کو سچ ثابت کر دیا ہے ۔  ان کارروائی کو  پاکستان کی اکثریت نے  بھر پور انداز سے خوش آمدید کہا ہے جس کی مثال ہنگو  میں بنگش اور طوری  قبائل کے جرگے میں پاکستان فوج کو اپنی مکمل مدد اور حمایت کا یقین دلایا گیا ہے اسی طرح  ایم کیو ایم کی کراچی میں فوج کی حمایت میں نکالے جانے والی ریلی مٰیں پاکستان کی سنی ، شیعہ ، مسیحٰی   جن میں  خاص طور پر سنی اتحاد کونسل ، سنی تحریک ، مجلس وحدت مسلمین  اور دیگر  جماعتوں نے بھر پور شرکت کی اور پاک فوج کو اپنی حمایت کا مکمل یقین دلایا۔   پاک فوج کے ادارے آئی ایس پی آر  نے اپنی پریس بریفنگ میں  وزیر اعظم کو یقین دلایا ہے کہ پاک فوج  شمالی وزیرستان  جو کہ طالبان کا واحد  اہم علاقہ ہے کو  چند ہفتوں میں دہشتگردوں سے آزاد کرالے گی اور حکومت کی رٹ کو مکمل طور پر بحال کر دیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاک فوج نے کہا ہے کہ پاک فوج پاکستانی عوام کی خواہشات پر اپنی   بے مثال  کارکردگی کی بنا پر  پورا اترے گی اور دہشتگردوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دے گی۔ اگر پاک فوج کی سابقہ کارروائیوں کو مدنظر رکھا جائے تو   پاک فوج  نے سوات ، بونیر ، ملاکنڈ اور دیگر علاقوں میں حکومتی رٹ کو جس طر ح بحال کیاوہ اپنی مثال آ پ ہے جو کہ شاید امریکی ، نیٹو اور افغان فورسز  افغانستان میں ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں ۔ اسی طرح پاک فوج کی حالیہ کارروائی  خصوصا" پاکستان ائیر فورس کے  شاہینوں کی شاندار  کارکردگی یقینا"  قابل ستائش ہے ۔  ضرورت اس امر کی ہے  سابقہ تین  دہائیوں سے  جاری مختلف  حکومتوں کی     دہشتگردی  سے پہلو تہی اور  در پردہ  حمایت کو ختم  کر کے   اور   اس  ناسور سے  مکمل    نبرد آزما ہونے  کے لیے  حکومت  وقت کے ساتھ ساتھ  پاکستان کی تمام سیاسی ، مذہبی اورلسانی جماعتوں کو  یک زبان ہو کر پاک فوج کی پشت پناہی کرنی چاہیے  تاکہ اس دہشتگردی کے کینسر سے پوری  پاکستانی قوم کو  پاک فوج کی مدد سے ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے اور  پاکستان کو پھر سے امن کا گہوارہ بنا یا جا سکے اور  اس کا شمار  دنیا کی تیز  رفتار ترقی کرنے والی قوموں میں ہو سکے۔

Saturday, February 22, 2014

ملک و قوم کی بھلائی



ملک و قوم کی بھلائی


طالبان اور حکومت کی طرف سے مزاکرات کی خبریں آج کل میڈیا میں خوب گرم ہیں اور طالبان اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاد اور دیگر شرائط کے پر عمل درآمد کے مطالبات کے ساتھ ساتھ خود کش بم دھماکوں کا سلسلہ شروع رکھے ہوۓ ہیں جس میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ملک کی مسلح افواج پر حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کے باوجود حکومت وقت مزاکرات کو مثبت قرار دے رہی ہے اور پی ٹی آئی کے چیئرمین اور طالبان کے مزاکرتی نمائندے جناب عمران خان طالبان کی وکالت کا سلسلہ پورے انہماک کے ساتھ جاری و ساری رکھے ہوۓ ہیں۔ طالبان نے اپنی خود ساختہ شریعت کا آغاز سنی اور شعیہ پاکستانی  عوام پر پہلے ہی کفر اور شرک کے فتوی دے کر  اور ان کی قتل و غارت کر کے کافی عرصے سے شروع کیا ہوا ہے لیکن مزاکرات کے نتیجے میں اب ایک دھمکی آمیز  پچاس منٹ کی ویوڈ منظر عام پر آئی ہے جس میں چترال کی حسین و جمیل وادی کیلاش میں صدیوں سے بسنے والی کیلاش کیمونٹی اور اسماعیلی فرقے سے وابستہ افراد کو براہ راست دھمکی دی گئی ہے کہ وہ طالبانی اسلام کو قبول کر لیں ورنہ مرنے کے کیلئے تیار ہو جائیں۔ کیلاش کیمونٹی جس کی تعداد انداز'' تین سے چار ہزار کے قریب ہے اور کیلاش کیمونٹی جو کہ غیر مسلم ہے اور اپنے آپ کو سکندر اعظم کے خاندان سے گردانتی ہے اور یہ لوگ بہت پر امن اور پاکستان کے حسین چہرہ ہیں جو اپنے کیلاشی کلچر کی بدولت پوری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے چلے آ رہے ہیں ۔ چترال میں مختلف قبائلی ایجنسویوں سے ہجرت کر کے آنے والے کچھ جرائم پیشہ خاندان آ کر اس وادی کے آس پاس آباد ہو چکے ہیں جو کیلاش کیمونٹی کی جوان لڑکیوں کو اغواء کرنے کے ساتھ ساتھ چوری اور واردتوں میں بھی ملوث ہیں۔ یہ کیمونٹی جو پہلے ہی جرائم پیشہ افراد کی وجہ سے شدید متاثر ہے اب رہی سہی کسر درندہ صفت طالبان پوری کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یہ مزاکرات کے دوران ہی شریعت کے عملی نفاز کی شروعات ہیں۔  اسماعیلی فرقہ جو باکثرت چترال اور گلگت میں آباد ہے وہ بھی طالبان کی دھمکی کی زد میں آ چکا ہے۔ کیلاش اور اسماعیلی کیمونٹی میں اس وقت شدید خوف کے عالم میں ہیں اور کافی سارے خاندان دیگر ممالک کی طرف ہجرت کر چکے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی الگ شناخت کے لیے سیاسی جماعت مسلم لیگ کی بنیاد 1906 میں ڈھاکہ میں رکھی تو اس کے پہلے سربراہ ایک اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے فرد جناب سر آغا خان سوئم بنے جس نے مسلم لیگ کی بنیاد ڈال کر  عملا' برصغیر میں  مسلمان کی ایک سیاسی  پہچان  پیدا کی۔  جب پاکستان بنا تو گلگت اور بلستان کے لوگوں نے کیپٹن حسن اور میجر بابر کے ہمراہ مسلح جہدو جد کر کے  کشمیر کی ڈوگرہ ریاست سے اپنی آزادی کو حاصل کیا اور اس آزادی کو حاصل کیے بیس دن ہی گزرے تھے کہ گلگت و بلستان کے مسلمانوں  نے جس میں شعیہ اور اسماعیلی فرقے کی اکثریت  تھی نے  پاکستان کے ساتھ الحاق کر کیا۔ اسماعیلی آبادی کی بڑی ریاستیں  جن میں سر فہرست  ہنزہ  اور نگر شامل ہیں ، ان ریاستوں نے بھی نوزائیدہ ملک پاکستان کے ساتھ اپنا الحاق کا اعلان کیا۔ اسماعیلی مسلمانوں نے پاکستان کی ترقی و خو شحالی کے کیلۓ عظیم خدمات دی ہیں جن میں آغا خان فائڈیشن ، آغاخان ہستپال اور میڈیکل یونیورسٹی جیسےمثالی اداروں کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ طالبان نے کیلاش اور اسماعیلی کیمونٹی جو دل و جان سے پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں کو براہ راست دھمکی دی ہے کہ وہ جیسے طالبان چاہیے ہیں ویسے مسلمان بن جائیں اور آغا خان فائڈیشن اپنے رفاہی کام بند کر دے اور پاکستانی غریب لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول جو فائڈیشن کے تحت چل رہے ہیں سب بند کر دیئے جائیں۔ اگر مزاکرات کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کو کھلی چھٹی دے دی جاۓ کہ وہاں جہاں چاہیں کارروائی کر گزریں اور جہاں چاہیں دھمکی دیتے پھریں اور کوئی پوچنے والا نہ ہو ۔ تو پھر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اپنی آئینی و قانونی حیثیت کھو چکی ہے اور اس ملک پر اسے حکمرانی کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جاتا ہے وہ ملک کے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں نام ہو جاۓ۔ لہذا حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور ان دھمکیوں کو سنجیدہ لینا چاہیے اور نام نہاد مزاکرات کا ڈھول پیٹنے کی بجاۓ حقیقی معنوں میں پاکستان کے شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور ایسے عناصر جو دہشتگردی میں ملوث ہیں ان لوگوں کے ساتھ  بروقت آہنی ہاتھوں سے نمٹنا  کی ضرورت ہے۔ اسی میں ہی ملک و قوم کی بھلائی ہے۔  

Wednesday, February 19, 2014

میرٹ ہو تو ایسا اور اصول ہو تو ایسا

 میرٹ ہو تو ایسا اور اصول ہو تو ایسا 

مسلم لیگ (ن) نے الیکشن 2013 میں بہت بلند و بانگ دعووں کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغار کیا اور پنجاب کے خادم اعلی قومی اخبارات میں اپنی حکومتی کارکردگی کے اشتہارات میں  دو باتوں کا تذکرہ بڑی شدومد کے ساتھ کرتے نظر آتے تھے۔   اشتہارات میں بڑے میاں صاحب کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا تھا " بات اصول کی" اور چھوٹے میاں صاحب کی تصویر کے ساتھ یہ الفاظ درج ہوتے تھے " میرٹ اور صرف میرٹ"۔ پنجاب کی جذباتی قوم ان دلفریب نعروں پر دل فریفتا ہو ئی اور الیکشن میں دل کھول کر میاں صاحبان کو بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اسمبلیوں میں پہنچا دیا۔ اب قوم مطمن ہو گئی کہ قوم کا عظیم نجات دہندہ میاں نواز شریف صاحب اس دہشتگردی، مہنگائی اور بیروز گاری سے پسی ہوئی عوام  کو چند دنوں میں  پرسکون اور آسودہ حال زندگی کی راہوں پر گامزن کر دے گا اور پوری دنیا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھے گی۔ اب جبکہ عوامی حکومت کو تقریبا" ایک سال ہونے کے قریب ہے، کسی ایک دعوی کی بھی تکمیل ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی بلکہ دہشتگردوں کو مزاکرات کی آڑ  میں قتل و غارت گری کا عملا" سرکاری لا ئیسنس دے دیا گیا ہے ، پہلے سے بیرونی قرضوں تلے دبی قوم کو مزید قرضوں میں دبایا جا رہا ہے اور مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی بجاۓ  مزید ٹیکسوں اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے اس جذباتی قوم  کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اور سفید پوشی کا بھرم رکھنا در کنار ہوتا جا رہا ہے۔ اب بات ہو جاۓ اصول اور عدلیہ کی آزادی کی دعوی دار مسلم لیگ (ن) کی۔ جس نے اقتدار میں   آتے ہی مختلف  محکموں کے سر برہان کے ساتھ پنگے لینا شروع کر دیئے۔ جس کا آغاز نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی برطرفی سے ہو ا جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر  ووٹر لسٹوں میں ووٹروں کے انگوٹھوں کی ویریفیکیشن کا عمل شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں انگوٹھوں کے نشانات نادرا کے ریکارڈ سے میچ ہی نہیں کرتے۔ اس کے بعد پیمرا کے چیرمیئن کو کرپشن کے الزامات کی بنا پر  برطرف کیا اور اس کے  ساتھ ہی دیگر اداروں کے سربراہان کو برطرف کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جن میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان، اٹارنی جنرل آف پاکستان، گورنر اسٹیٹ بنک  کے علاوہ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین جناب ذکا اشرف بھی اس کی زد میں آۓ۔ان میں سے کچھ سربرہان نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان افسران کی برطرفیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوۓ ان کو اپنے عہدوں پر بحال کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ۔ اصول اور صرف اصول اور میرٹ اور صرف میرٹ کی رٹ لگانے والی جماعت کے ان اصولوں اور میرٹ کی کلی عدلت  عالیہ نے عوام کے سامنے کھول کے رکھ دی۔ لیکن حکومت نے اس کے باوجود اداروں کے سربراہوں کے ساتھ پنگے لینے کا کھیل ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے اور چیئرمین نادرا حکومتی دباو کو برداشت نا کر سکے اور خود ہی  بعد میں استعفی دے دیا جبکہ دیگر بحال ہونے والے افسران پہ  تا حال حکومتی انتقام کی ننگی تلوار سر پہ لٹک رہی ہے۔   کچھ دن قبل عدالت کے حکم پر  بحال ہو نے والے چیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف جس نے بگ تھری سازش کے خلاف اصولی اور عوامی موقف اختیار کرتے ہو ۓ پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا۔ حالانکہ اسے بگ تھری کی حمایت کے بدلے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی صدارت کی بیشکش بھی کی گئی جسے اس نے ٹھکرا دیا تھا۔ اس احسن اقدام کے بعد جیسے ہی وطن واپس لوٹے تو میرٹ اور اصولوں کے ترجمان وزیر اعظم پاکستان جناب نوار شریف نے  بگ تھری کے خلاف موقف اختیار کرنے پر ایک داد تحسین  کچھ اس طرح دی کہ چیئرمین ذکاء اشرف سمیت  پورے کرکٹ بورڈ کو ہی تحلیل کر دیا اور عدلیہ کے حالیہ فیصلے پر زور دار تھپڑ رسید کیا اور اس عظیم اقدام پر جذباتی پاکستانی  قوم بے ساختہ پکار اٹھی کہ  میرٹ ہو تو ایسا اور اصول ہو تو ایسا۔    

Saturday, February 8, 2014

یہ کیسا جہادہے؟



تحریر: ںصیر جسکانی

دو دن قبل شام میں حضرت محمد کے نواسے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی پیاری ننھی بیٹی حضر ت بی بی سکینہ  کے دمشق میں واقع مزار پر کئی راکٹ فائر کر کے مزار کے طلائی گنبد کوشہید کر دیا گیا۔ جب یہ خبر میری سماعت سے ٹکرائی تو میں ایک لمحہ کیلۓ دم بخود رہ گیا۔ یہ عیظم المرتبت ہستیاں جو اسلام کا سرمایہ ہیں ،بقاۓ دین کی علامت ہیں اورجو اسلام کی پہچان ہیں کو اس بے دردی کے ساتھ مہندم کیا جاۓ ۔  حضرت محمد مصطفے نے اپنی اہلبیت کیلۓ فرمایہ تھا کہ "اے مسلمانوں میں تم سے کوئی اجرت رسالت نہیں مانگتا ، ہاں مگر تم لوگ میرے اہلبیت سے مودت کرنا"۔ مسلمان تو  وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ لیکن میں حیران ہو ں یہ کیسا اسلام  ہے جس میں میں خود اسلام کی عظیم المرتبت ہستیوں کے مزارات محفو ظ نہیں۔ اگر شام کے حالات پر نظر ڈالی جاۓ تو معلوم یہ ہوتا ہے  وہاں خانہ جنگی کی آڑ میں دنیا بھر سے دہشتگردوں کو اکھٹا کیا گیا ہے جس سے پورے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔  اور تو اور اب کچھ یورپی ممالک بھی اس خطرے کا احساس کر رہے ہیں حتی کہ سپین نے تو یہاں تک کہ دیا ہے  شام میں دہشتگردوں کی موجودگی سے ان کا ملک متاثر ہو رہا ہے۔  شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے جنہیں اکثر عربی و غربی میڈیا مجاہدین یا باغی کا نام دیتا آیا ہے اب خود ان ممالک کو ان دہشتگردوں سے خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔  دہشتگردی کی ان کارروئیوں کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کو مختلف مذاہب خاص کر عیسائی اور مسلمانوں کے مذہبی اور مقدس مقامات کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل شام کے شہر   معلولہ  جہاں عیسائی اکثریت  میں ہیں وہاں عیسائیوں کے چرچوں کو جلا دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ  شام کے دیگر شہروں  میں مسلمانوں کے مقدس مقامات جن میں حضرت محمد کے صحابی حجر بن عدی کی قبر اطہر کو پامال کیا گیا اور ان کے جسد پاک کی بے حرمتی کی گئی ، حضرت خالد بن ولید کے مزار کی بے حرمتی، رسول پاک کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار کے مزار کو آگ لگائی گئی، تاریخی مسجد بنو امیہ کو پامال کیا گیا اور دمشق میں ہی حضرت بی بی زینب سلام علیہ کے مزار پر حملہ کیا گیا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو منہدم کرنے والوں میں وہ دہشتگرد گروہ شامل ہیں جو اسلام میں تفرقہ ایجاد کرنے کے موجد ہیں ۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو 1924 میں جب ترکوں کی سلطنت عثمانیہ جو کہ مسلمانوں خاص طور پر عرب مسلمانوں کی اتحاد کی مظہر تھی کو برطانوی سامراج کی سرپرستی اور مکارانہ کردار کی بنا پر ختم کردیا گیا اور آل سعود نے نجد میں اپنی حکومت کا اعللان کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے مقدس مقامات خصوصا" آل رسول کے مزارت کو منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ اگر اسی تناظر میں دیکھا جاۓ تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شام میں حکومت کے خلاف  برسر پیکار گروہوں کو سعودی حکومت پر پور عسکری، مالی اور سفارتی امداد پہنچا رہی ہے۔  حال ہی میں  روس ،عراق،لبنان اور شام نے سعودی حکومت اور خاص طور پر سعودی انٹیلجنس کی شکایت اقوام متحدہ  سےکی ہے کہ سعودی حکومت ان ممالک میں دہشتگردوں کی  مختلف کارروئیوں میں معاونت کر رہی ہے۔ جبکہ ان ممالک کے برعکس پر امن ملک پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف نے سعودی شاہی خاندان کی احسان مندی کا پورا پورا حق ادا کرتے  ہوۓ سعودی عرب کو مسلمان ممالک کیلۓ رول ماڈل قراد دے رہے ہیں  جو کہ بہت حیران کن بات ہے۔  امکان قوی  ہے کہ طالبان کے ساتھ مزاکرت بھی اسی رول ماڈل کی ایما پر ہو رہے ہیں۔  پوری دنیا یہ بات  باخوبی جانتی ہے کہ مسلمان ممالک (جن میں عراق، لبنان ، یمن ، افغا نستان ، پاکستان، صومالیہ،  کئی افریقی اور عرب ممالک  شامل  ہیں) میں بد امنی اور دہشتگردی کرنے والی قوتیں ایک ہی تفکر کی حامل ہیں۔ ظاہرا"  یہ اسلامی شریعت اور اسلامی نظام کے نفاد مطالبہ کرتی  ہیں مگر ان کا عمل صریحا" اسلام کے بر خلاف ہے ۔ یہ قوتیں اپنی سفاکانہ اور دہشتگردانہ  کارروئیوں کو اسلامی جہاد کا نام دیتی ہیں مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ کیسا جہاد ہے جس کے ذریعے  اسلامی ممالک کو کمزور کیا جاۓ  ، شعائر اللہ کی توہین کی جاۓ ،  مسلمانوں کے مقدس مقامت کی بے حرمتی کی جاۓ اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا جاۓ۔  اب وقت آ گیا ہے کہ اس غیر انسانی عمل کا ارتکاب کرنے والی قوتوں اور ان کے سرپرستوں کو ان اٹھنے والےان سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ 

Tuesday, February 4, 2014

طالبان سے مزاکرات کے خلاف اٹھنے والی آوازیں


تحریر: ںصیر جسکانی


آج کل پاکستان میں طالبان کے ساتھ مزاکرات کے حوالے سے خبریں خوب گرم ہیں۔ ایک طبقہ جو بڑی شدومد کے ساتھ مزاکرات کا حامی نظر آتا ہے تو دوسرا شدید مخالف ۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جاۓ تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے اور قومی اتفاق راۓ کا فقدان واضح نظر آتاہے جو حکومتی نا اہلی کا کھلا ثبوت ہے۔ بہر کیف حکومت نے طالبان کے ساتھ مزاکرات کے راستے کو چنا ہے اور چنتی بھی کیوں نا آخر الیکشن میں طالبان نے خاص طور پر ان دونوں پارٹیوں میرا اشارہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی طرف ہے کو کھلی چھوٹ دی دھماکے اور خود کش حملوں سے اور دیگر کسی بھی طرح کی دہشتگرد کارروئیوں سے۔ اب جو مزاکرات کے حامی نظر آ رہے ہیں ان میں مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور اس کے ساتھ ساتھ دیو بند مکتب فکر سے وابستہ مذہبی سیاسی جماعتیں مثلا" جماعت اسلامی، جمعیت علماۓ اسلام (ف) ، جمعیت علماۓ اسلام (س)، اور دیگر کالعدم جماعتیں جن میں سپاہ صحابہ ، جماعت الدعوہ اور دیگر لشکر وغیرہ شامل ہیں۔ اس دوران  کچھ سیاسی جماعتیں خاموشی یا نیم رضا مندی کا مظاہرہ کر رہی ہے جن میں اے این پی ، بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ اور سندھی قوم پرست جماعتیں شامل ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں آیا وہ مزاکرات کی حمایت کھل  کر کریں یا نہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔  دوسری طرف اگر نظر دوڑای جاۓ تو کافی ساری سیاسی و مذہبی جماعتیں اس مزاکرات اور حکومت کی طرف سے بنائی گئی مزاکراتی کمیٹی پر اپنے شدید تحفظات کا اعلان کر چکی ہیں اور حکومت کو طالبان کا پٹھو قرار دے چکی ہیں۔ ان جماعتوں میں ایم کیو ایم ، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ، منہاج القران کے بانی و سرپرست ڈاکٹر طاہرالقادری ، وائس آف شہداء پاکستان اور پیپلز پارٹی کے سینٹر سید فیصل رضا عابدی ، شیعہ مسلمانوں کی مقبول سیاسی و مذہبی جماعت مجلس وحدت المسلمین ، سنی بریلوی مسلمانوں کی مختلف اکیس مذہبی جماعتوں پر مشتمل الائنس سنی اتحاد کونسل ، سنی تحریک کے ساتھ ساتھ مختلف اقلیتی جماعتوں کے رہنما جن میں عیسائی ، سکھ ، ہندو وغیرہ اب  بابانگ دہل طالبان کے خلاف آپریشن کے حکومتی اعلان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان رہنماوں کی طرف سے مطالبہ سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین اور وائس شہداء پاکستان کی طرف سے اسلام آباد میں ڈی چوک پر گذشتہ ماہ منعقد ہونے والی قومی امن کانفرنس اور کل کوئٹہ میں علمدار روڈ ہونے والی پیام شہداء و اتحاد امت کانفرنس ہے جس میں مقررین نے کھل کر حکومت پر مزاکرات کے حوالے سےکڑی تنقید کی اور اسکو پاکستان کے آئین و دستور کی کھلی خلاف وزی قرار دیا۔ مقررین نےمزاکرات کے اعلان کو پاکستان کی محب وطن قوتوں کو دیوار سے لگانے کی  مزموم سازش قرار دیا۔ اب غور طلب نقطہ یہ ہے کہ مزاکرات کی مخالفت کرنے والے اور مزاکرات کی حمایت کرنے والوں کا طالبان کے ساتھ تعلق  یا ربط کی نوعیت کیسی اور کس طرح کی  ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مزاکرات کی حمایت کرنے والے اکثرطالبان کی سوچ و فکر کے بہت قریب تر ہیں اور ان پر طالبان کی طرفداری کا الزام بھی اکثر لگتا رہتا ہے جو در حقیقت درست بھی ہے جبکہ مزاکرات کی مخالفت کرنے والوں میں وہ سب لوگ اور جماعتیں شامل ہیں جو طالبان کی دہشتگرد کارروئیوں کا مسلسل نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں اوران میں اکثریت شہداء کے خانوادوں کی ہے جو  طالبان کے خلاف آپریشن کے مطالبہ کے حامی ہیں۔ میری اپنی ناقص راۓ میں آپریشن کا مطالبہ کرنے والے حق بجانب ہیں کیونکہ حکومت نے ان لوگوں کو اعتماد میں بلکل نہیں لیا اور مزاکرات کا اعلان کر دیا اور ساتھ ساتھ جو حکومتی کمیٹی تشکیل دی وہ کسی طرح مظلوم پاکستان عوام کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ وہ تو طالبان کے ہمدرد اور مددگار  افراد پر مشتمل ایک گروہ گردانا جاتا ہے اور یہ لوگ  مختلف مواقعوں پر  طالبان کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔ اس نازک صورت حال میں  طالبان کی سوچ کی عکاسی کرنے والے مطالبات اگر حکومت قبول کرتی ہے جو ممکن نظر نہیں آ رہا تو پھر طالبان کی طرف سے قتل کئے گئے افراد کے خاندانوں کے ساتھ ساتھ پر امن سنی ، شیعہ، عیسائی ، ہندو اور احمدیوں کا حکومت اور ریاست سے اعتماد اٹھ جاۓ گا جو ملک پاکستان کیلۓ خدانخواستہ کسی بڑی مصیبت  کا پیش خیمہ ثابت  ہو سکتا ہے۔ لہذا حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ دہشتگردی سے متاثر افراد اور جماعتوں کو مکمل اعتماد میں لے کر مزاکرات کا فیصلہ کرتی اور مذاکراتی کمیٹی میں شامل افراد پر ان کے جائز اعتراضات کو دور کرتی۔ اب حالات اور وقت کا تقاضہ  یہی ہے کہ حکومت ان مذاکرات کے خلاف اٹھی والی آوازوں پر توجہ دے اور ان کے اعترارات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے کہیں ایسا نہ ہو کہ محب وطن قوتیں  حکومت کے خلاف نہ اٹھ کھڑ ی ہوں اور ملک پھر کسی بڑے سیاسی بحران کا شکار نہ ہو جاۓ ۔  

Monday, February 3, 2014

بھاگ لگے رہن ، بادشاہیاں سلامت رہن


تحریر: نصیر جسکانی


چند دن پہلے جناب عرفان صدیقی صاحب کا ایک کالم روز نامہ جنگ بعنوان " ملا فضل اللہ کی زندگی کے روشن پہلو" نظر سے گزرا جس کو دیکھ کر کچھ ایسا محسوس ہوا کہ پنجاب کی شادیوں میں کبھی کبھار مراثی یا بھانڈ آ کر دولہا صاحب کی شان و شوکت میں لوگوں کے سامنے قصیدے اور جھوٹی تعریفوں کے پل کچھ ان انداز سے بندھتے ہیں " بھاگ لگے رہن ، بادشاہیاں سلامت رہن"  ہو سکتا ہے دولہا بے چارمزدور ہو یا نیکھٹو مگر بھانڈ کی نظر میں وہ بادشاہ ہی ہوتا ہے کیونکہ بھانڈ کی روزی روٹی دولہا صاحب کے نام نہاد روشن پہلو اجاگر کرنی پے موقوف ہوتی ہے ۔ اب کچھ بات ہو جاۓ ملا صاحب کی زندگی کے ان روشن پہلووں کی جو جناب عرفان صدیقی صاحب کے قلم سے تراشے گئے ہیں۔ پہلا روشن پہلو یہ ہے کہ "ملا کا دل موم کی مانند نرم و ملائم ہے"۔ عجیب منطق ہے کہ ایک ایسے شخص کا دل موم کی طرح ہے جس کی گردن پر سیکڑوں معصوم بچوں اور لوگوں کا خون ہے، جس شخص میں ذرہ برابر انسانیت کی رمک نہیں ہے جس نے سوات جیسی جنت النظریر وادی کو ایک اپنی خود ساختہ شریعت جس کا عنوان قتل و غارت سے تعبیر ہے کو آگ و خون میں غلطاں کر دیا ۔ دوسرا روشن پہلو جوعرفان صدیقی صا حب نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ " ملا مرد حق، مرد درویش اور مرد مومن ہے"، سبحان اللہ کیا عقل و بصیرت پائی ہے جناب عرفان صدیقی صاحب نے جبکہ قرآن مجید پکار پکار کر کہہ رہا ہے جس نے ایک بے گناہ شخص کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا ، ملا موصوف کی درندگی کی داستانیاں زبان زد عام ہیں ، ایسا شخص مرد حق، مرد مومن، مرددروش شاید صدیقی صاحب کی نظر میں تو ہو سکتا ہے مگر عدالت والے رب کے حضور اور منصف مزاج انسانی اذہان میں کبھی نہیں۔ تیسرا روشن پہلوجو حضرت عالی جناب عرفان صدیقی صاحب زیب قرطاس کرتے ہیں کہ "ملا صاحب ایک ہیرا ہے اور جس کی چکا چوند سے پوری دنیا روشن ہو سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگر عرفان صدیقی صاحب ملا موصوف کو تراش لیں تو یہ ہیرا پوری کائنات کا گوہر بن سکتا ہے"، اگر کسی قوم میں ایسے ہیرے دو چار اور پیدا ہو جائیں تو پھر اس قوم کی حالت پے فاتحہ ہی پڑھ لینی چاہیے۔ ایسا ہیرہ جس کی نظر میں معصوم بچوں اور بچیوں جن کو یہ بھی شعور نہیں ہوتا کہ دشمنی کیا ہوتی ہے نفرت کیا چیز ہے کو موت کی گھات اتار دینا اور ان کے سکولوں کو دھماکوں سے اڑا دینا ، پولیو اور دیگر جان لیوا بیماریوں کے بے رحم منہ میں دھکیل دینا عین اسلام کی خدمت ہے۔ عرفان صدیقی کی نظر میں چوتھا اور آخری بڑا کار نامہ یہ ہے کہ ملا موصوف نے پاکستان میں جس درندگی اور سفاکیت کا مظاہرہ کیا ہے اس بے نظیر کام نے پوری دنیا میں گم نام ملک پاکستان کو شاندار انداز میں روشناس کروا دیا ہے اور اب پاکستان ملا موصوف کی وجہ سے پوری دنیا کیلئے ایک روشن مینارہ بن کر ابھرا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ جو لوگ  حکومت کی طرف سےمزاکراتی ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں وہ سب دہشتگردوں کی کارروائیوں کے کبھی متاثرین میں سے نہیں رہے بلکہ تمام حضرات کئی سالوں سے طالبان کی دہشتگرد کارروائیوں کا پورے انہماک کے ساتھ دفاع کرتے رہے ہیں۔ لیکن  افسوس صد افسوس کہ عرفان صدیقی جسکی شخصیت  کوکچھ  تجزیہ نگاروں فہم و فراست سے تعبیر کرتےآۓ ہیں مجھے ان کی عقلوں پے ماتم کرنا آ رہا ہے۔ میری ناقص راۓ میں حکومت کے مزاکرت انسانی اقدار، بین الااقوامی اصولوں ،اسلامی تعلیمات، آئین پاکستان اور شہریوں حقوق کی صریحاٰ خلاف ورزی ہے۔ حکومت وقت ایک ایسی سنگین غلطی کی مرتکب ہو رہی ہے اگر مظلوم شہری اپنے دفاع اور انصاف کیلۓ  خود اٹھ کھڑے ہوۓ تو جس کا نتیجہ خاکم دہن خانہ جنگی پر منتج ہو سکتا ہے۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے مسلح گروپ کو پہلے غیر مسلح کیا جاتا پھر آئین پاکستان کی رو سے انصاف کے تقاضوں کی روشنی میں مزاکرت کیے جاتے تو بات سمجھ میں آتی۔  لیکن پاکستان کی اکثریت عوام کے مطالبے اور آئین پاکستان کے بر خلاف طالبان کی سوچ کے حامل ریاستی افراد کو مزاکرتی ٹیم میں شامل کر کے ان انسان نما درندوں سے اگر مزاکرات کیے جاتے ہیں تو پھر  پیارےوطن  پاکستان کا مستقبل کیا ہو گا ،  میں یہ فیصلہ آپ قارائین پر چھوڑتا ہوں۔