ایک اورخطر ناک حماقت
پاکستان جو اس وقت دہشتگردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے یہ سب کچھ اچانک
نہیں ہوا بلکہ یہ آگ ہمارے ناعاقب اندیشن
حکمرانوں کی سابقہ کئی دہائیوں پر محیط اپنی غلط داخلی اور خارجی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جو انہوں نے
بیرونی آقاوں کے حکم پر نافذ کیں
اور پیارے ملک میں اس شجر خبیثہ کی آبیاری
کی اور آج وطن عزیز اس کے چبھنے والے کانٹون کی وجہ سے آگ و خون میں تر نظر آ رہا
ہے جیسا کہ شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔
یونہی بےسبب تو نہیں ہیں چمن کی ویرانیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شر سے ملے ہوئے
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان آمریت کے دور میں ہونے والے غلط فیصلوں سے
ہوا ۔ جیسا کہ ایوب خان کے دور میں ہونے والی جنگ اور پاکستان کا امریکی حکومت کی
طرف جھکاو پھر سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے
اس کے بعد یحیی خان کے دور میں پھر
جنگ اور سقوط ڈھاکہ جیسے واقعات ۔ اسی
طرح ضیاء الحق کا دور جو کہ پاکستان کی
تاریخ کا بد ترین دور تھا جس نے ملک پاکستان
نظریاتی اور جغرفیاتی جڑوں
کو دیمک کی طرح کھو کھلا کر دیا اور پھر رہی سہی کسر پرویز مشرف کی امریکہ نواز
پالیسیوں نے پوری کر دی ۔ اگر بنظر غور
دیکھا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ جنرل ضیاء پھر اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے جس طرح
طالبانی فکر کی آبیاری کی اور افغانستان کو فتح کرنے کی سر توڑ کوششیں کی وہ سب تاریخ کے اوراق پر عیاں
نظر آتی ہیں اور ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں سوچا کہ جو آگ و خون کا بازار ہم نے
افغان بھائیوں کیلئے گرم کر رکھا ہے اور کسی وقت یہی اپنے ملک کی طرف واپس پلٹ آیا
تو پھر کیا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ عقل مند
اپنی غلطی سے سیکھ کر اسے دوبارہ کبھی نہیں دہراتا ہے ۔ حالانکہ ہم اپنی کو تاہیوں
سے پہلے ہی وطن عزیز کو دو لخت کر چکے تھے
مگر چونکہ ہمیں اسلام کا قلعہ کہاگیا تھا
پس اسلام کی بقا ء کا ٹھیکہ بھی حضرت امیر المومنین ضیاء الحق نے اٹھایا اور
امریکی و سعودی احکامات کی روشنی میں اسلام دشمن
روسی نظام کیمونزم کو نابود کرنے
کی بھاری ذمہ داری اپنے نحیف کندھوں پے اٹھائی اور جو زہریلی فصل کو اگایا تھا وہی
جب پک کر تیار ہوئی تو اپنی کی سر زمیں کو
لہولہان کرنا شروع کر دیا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران پھر بھی نہیں
سیکھ پائے اور ابھی تک اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں یا دشمن جو
کہ اب تک ہزاروں بے گناہ معصوم پاکستانیوں کا قتل عام کر چکے ہیں۔ عقلمند وہی ہوتا ہے جو اپنے دشمن سے ہوشیار اور
چوکنا ہوتا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں ایسی
احمقانہ روش اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ان کی عقلوں پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے
۔ یہ بات انٹرنیشنل میڈیا اور لوکل میڈیا
میں بھی بار بار دوہری جا رہی ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے جوہری اور دیگر اسلحہ خریدنے کا
خواہش مند ہے جو کہ ایران کے خلاف اپنی سکیورٹی کی مضبوط بنانے کیلئے رکھنا چاہتا ہے ۔ اسی طر ح ایک ڈیل کا تذکرہ
ایک عرب جریدہ نے کیا کہ سعودی عرب شامی
حکومت کے خلاف برسر پیکار باغیوں کیلئے
طیارہ شکن میزائل اور ٹینک شکن آلات خریدنا چاہتا ہے تاکہ شام میں سر گرم دہشتگردوں کی قوت میں اضافہ کیا جا سکے۔ ، اس سلسلےمیں
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کا
حالیہ دورہ سعودی عرب پھر سعودی وزیر
خارجہ کا دورہ پھر اس کے بعد سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان جو بظاہراسی ڈیل کا ایک حصہ لگتاہے ۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ڈیل
تقریبا" اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ کی
ترجمان اسے بے بنیاد پراپیگنڈہ قرار دے رہی ہے
لیکن پاکستان کے وزیر اعظم اور سعودی ولی عہد کی مشترکہ پریس کانفرنس جس
میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور شام میں ایک عبوری حکومت کی تشکیل کا مطالبہ اور بشاراسد کی معزولی بھی شامل تھی سے اس ڈیل
کی بازگشت کو تقویت مل رہی ہے-سعودی عرب پاکستان کو شام کی جنگ میں عملی طور پر
دھکیلنا چاہتا ہے جو کہ پاکستان کے ہمسایہ
ممالک اور دیگر عرب اور غیر عرب
ممالک خصوصا" شام،لبنان، عراق ،
ایران ، روس ، اور چائینہ جو کھل
کر سلامتی کونسل میں شام کی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں کو براہ راست ہماری دشمنی پر اکسا رہا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ میاں صاحب سعودی باد شاہوں سے
اپنی دیرینہ قربت اور احسان مندی کی وجہ
سے انکار نہیں کر پا رہا۔ جس کی تازہ مثال پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے عظیم الشان منصوبے کو امریکہ اور خاص کر سعودی عرب کی
مداخلت کی وجہ سے پس پشت ڈال دیاگیا ہے۔ ایک اور خبربھی گرم ہے کہ سعودی عرب
پاکستان سے 1500 ہزار فوجی اپنی شاہی
سکیورٹی کیلئے کرائے پے طلب کرنا چاہتا ہے جو کہ یقینا" سعودی شاہی خاندان کے غیر انسانی اقدامات کےلئے استعمال ہو سکتے ہیں
جو سعودی عرب کے اندر اٹھنے والی شہری آوازوں کو دبانے یا پھر احتمال یہ ہے کہ یہ فورس بحرین میں شہری انقلاب کے خلاف
بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ پاکستانی عوام یہ
سوال پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ حکومت وقت نے ان کی جان و مال کی حفاطت کی بھاری
ذمہ داری کیا ادا کر دی ہے ، کیا ملک کی
سکیورٹی کو در پیش چیلنجز کو پورا کر دیا گیا ہے، کیا یہ اقدامات پاکستان کی
پالیسی جیو اور جینے دو سے تال میل کھاتے ہیں ۔
لہذا موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی فرد کی شخصی خوشنودی کیلئے ملک کے مستقبل کو داوو پر لگانے
سے اجتناب کرے اور اس قسم کی خطر ناک اور
سنگین حماقت کا ارتکاب کرنے سےباز
آ جائے کیونکہ وطن عزیز اب اس قسم کی احمقانہ
اقدامات کا متعمل نہیں ہو سکتا۔