Tuesday, March 4, 2014

طالبان کی جنگ بندی ۔۔۔امکانات و خدشات


طالبان کی جنگ بندی ۔۔۔امکانات و خدشات

 حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان فروری میں شروع ہو نے والا  مزاکرتی سلسلہ   طالبان کی طرف سے مسلسل خون ریزی جاری رکھنے کے بعد   تقریبا" بیس دن  تک ہی چل پایا ۔ اس دوران ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں طالبان اور اس کے حامی مذہبی اور  سیاسی  افراد کو خاصی کوریج ملی ۔  طالبان ایک ریاست کے ساتھ برابری کی سطح پر آ گئے جو کہ کسی بھی دوسرے ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی  کہ ایک قاتل اور جرائم پیشہ افراد کو اتنی عزت اور تکریم دے کر  برابری کی سطح پر مزاکرات کیے جائیں ۔  بہر کیف  طالبان کی طرف سے 23ایف سی اہلکاروں کی  شہادت کے بعد  حکومت نے  فضائی  حملے کرنے کامجبورا" فیصلہ کیا ۔ پاک فوج نے اپنی کامیاب سرجیکل اسڑائکس سے  طالبان  کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور جس سے بہت سارے ملکی و غیر ملکی دہشت گرد ہلاک و زخمی ہوئے ۔   پاک فوج نے اپنی پریس بریفنگ میں  یہ بات واضح کی کہ  فوج نے طالبان کے خلاف گھیرا تنگ کر لیا ہے اور شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے چند ہفتوں میں خالی کرا لیا جائے گا۔   جب پاک فوج کی کارروائیاں جاری ہیں تو طالبان نے عارضی جنگ بندی اور سیز فائر  کا ایک ماہ کیلئے اعلان کیا ہے ۔ جس کو  حکومت اور طالبان کے حمایتی مذہبی و سیاسی  راہنماوں نے ایک احسن قدم قرار دیا ہے۔  مگر پاکستان کی عوام اور  عسکری  ماہرین اس اعلان پر شکوک و شہبات کا اظہار کر رہے ہیں  کہ آیا یہ طالبان  مزید وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی کمزور پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔   یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ  طالبان کو بنانے اور تربیت کرنے میں پاکستان کی حکومتوں ، سیکولر ، مذہبی  اور عسکری قیادتوں نے بہت محنت اور سرمایہ  خرچ کیا  اور  اس اثاثہ کو سڑٹیجک ڈیپتھ   کی غرض سے افغانستان کو پاکستان کا ایک صوبہ بنانے کیلئے   تیار کیا گیا تھا لیکن پھر یہ لوگ اپنی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جو اس وقت مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں  اور ان پر بیرونی  امداد کے الزامات بھی ہیں جن میں انڈیا ، اسرائیل، افغانستان اور  سعودی عرب سے  امداد دی جا رہی ہے۔  اچھے اور برے طالبان کی اصلاح بھی سننے میں اکثر اوقات آتی رہتی ہے۔  اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ  طالبانی فکر کو پروان چڑھنے والے مدارس کو سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک امداد  فراہم کرتے ہیں۔ نواز حکومت کے اقتدار میں آنے سے پاکستان میں سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے پاکستان کی داخلی و خارجی   پالیسیوں کو عوام پاکستان اور بین الاقوامی   دنیا  میں مشکوک بنا دیا ہے۔ سعودی عرب کا رویہ  شام ، عراق، لبنان اور ایران کے حوالے سے       مخالفانہ رہا ہے۔   شام کی جنگ میں  مسلح دہشتگردوں کو اسلحہ اور ہر طرح کی امداد دینے میں سعودی عرب سرفہرست ہے مگر اب ہوا یہ ہے کہ  شام میں دہشتگردی کرنے والے گروہ  اس  وقت آپس میں  شدید متصادم نظر آ رہے ہیں اور یہ صورت حال  بشاراسد حکومت کے مخالفین  کے لئے بہت پریشان کن ہے جس کا اظہار سعودی عرب ، قطر ، ترکی اور خود امریکی عہدے دار   اکثر اوقات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات بھی انٹرنیشنل میڈیا میں  زیر باعث ہے کہ  سعودی عرب   ان جہادیوں کو جو اس وقت مختلف ممالک میں  دہشتگردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں   کو یکجا کر کے  ایک  پرائیوٹ فورس تیار کرنے کی کوششوں میں  لگا ہوا ہے۔  اس سلسلہ میں پاکستان کی  مدد کی اشدضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور پاکستان کی موجودہ حکومت   اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔   موجودہ مذاکرات بھی در حقیقت ان  دہشتگردوں کی قوت کو اپنے تابع کرنا ، مجمع کرنا اور عالمی دہشتگر د فورس کی تشکیل کو حتمی شکل دینا ہے۔  مزاکرات کی کامیابی کی صورت میں  امن صرف یہی آئے گا کہ حکومتی  و سیاسی شخصیات ،  سول اور سکیورٹی اداروں  وغیرہ   پر حملوں کا سلسلہ شاید بند ہو جائے  جبکہ  شیعہ، سنی اور دیگر  اقلیتوں  کی ٹارگٹ  کلنگ جاری رہے گی ۔  کئی دہائیوں کی محنت سے تیار ہونے والی تکفیری فورس کو  پھر احمقانہ طریقے سے استعمال کر کے بین الاقوامی تکفیری فورس کا با قاعدہ حصہ بنایا جائے گا اور جس کا  ہیڈ کوارٹر اردن میں بنائے جانے کی شنیدا" ہے۔ اور اس فورس کا بڑا مقصد عراق و شام میں عالمی خلافت کی بنیاد پر  ایک مشترکہ ریاست کی تشکیل ہے ۔  اس فورس کی بنا پر سعودی عرب دنیا میں اپنے  اثرو روسوخ کو بڑھنا چاہتا ہے اور عالمی منظر پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس کیلئے وہ پاکستان کو وہ ایک بیساکھی  کے طور پر  استعمال کرنا  چاہتا ہے۔  یہ کہنا غلط ہے کہ مزاکرات کی ناکامی کی صورت میں بڑی تباہی آئے گی بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مزاکرات کی کامیابی کے بعد پاکستان میں ایک بڑی تباہی نظر آ رہی ہے جس سے ریاست کے وجود کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔  ہم پھر وہی 80 کی دہائی والی پالیسیوں کو دہراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ تہران ریڈیو کی پشتو سروس کے رپورٹر  جاویدرشید نے یہ  خبر دی ہے کہ  کراچی   سے پاکستان نے  سی 130 طیارے کے ذریعے سعودی عرب کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت  شام کے خلاف برسر پیکار دہشتگردوں کے لئے طیارہ شکن  اور توپ شکن میزائل اور دیگر آلات اردن روانہ کر دیئے ہیں۔  گو کہ پاکستانی  دفتر خارجہ کی ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے لیکن  مزاکرات کا دوبارہ آغاز اور حکومتی بیانات یہ پتہ دے رہے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اگر یہ بات درست ثابت ہوتی ہے تو  پاکستان کی عوام یہ بات  پوچھنے  کی حقدار  ہے کہ برسر اقتدار چند افراد کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ملک   کے  سیاہ سفید کے مالک بن کر   اپنی ذاتی مفاد اور ترجیحات  کے تحت فیصلے کریں اور ریاست کے وجود پر مزید زخم لگائیں ۔  ہر ذی شعور شخص  یہ جانتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات  پاکستان کے مفاد میں نہیں کیونکہ طالبان کی فکر  پاکستان دوست اور اسلامی فکر نہیں۔  لہذا پاکستان دشمن قوتوں کا  مکمل قلع قمع کیا جائے اور پاکستان  کی نظراتی سرحدوں کا  دفاع کیا جائے  ۔ مزاکراتی کمیٹیوں کے ممبران  ان طالبان کو پاکستان دوست    ثابت کرنے کی روش  ترک کر دیں  اور ماضی کی طرح پاکستان میں طالبانی فکر کو پروان چڑاھنے کیلئے حکومتی سرپرستی کرنے سے اجتناب کیا جائےورنہ پھر یہ ناسور مستقبل میں پاکستان کیلئے شدید مشکلات پیدا کر دے گا۔ وقت اور حالات اس  بات کے متقاضی ہیں کہ طالبان کا مکمل خاتمہ اور اس فکر کی بیخ کنی ہی ایک روشن پاکستان  کی ضامن ہے۔       

No comments:

Post a Comment