Wednesday, March 5, 2014

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

چند دن قبل اسلام آباد  کے سیکٹر ایف 8 کے سیشن کورٹ  کے احاطے میں ہونے والے خودکش حملے اور شدید فائرنگ  سے میڈیا رپورٹ کے مطابق  11 افراد  شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ اس فائرنگ کے نتیجے  میں  شہید ہونے والے میں اعتدال پسند اور بہادر  ایڈیشنل  سیشن جج  رفاقت احمد اعوان  جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا ۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق  اس فرض شناس جج کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے   لال مسجد کیس  میں  عبدالرشید   غازی کے بیٹے کی درخواست جو کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تھی کو مسترد کر دیا تھا  ۔  اور  حق اور سچ کے اصول پر کیا جانے والے  فیصلے  کی بنا پر   شاید جج صاحب نے  سمجھا ہو گا کہ سچ بولنا اس مملکت  خدا داد میں کوئی جرم نہیں ہے  ۔ ہاں جج  صاحب کو  وزیر داخلہ کی وہ  پریس کانفرنس   بھی یاد ہو گی جو چند دن قبل کی گئی  جس کے مطابق  اسلام آبا د  ایک محفوظ شہر ہے  اور شہر میں   امن و آتشی  کا طوطی بولتا ہے  ۔ لیکن  ہو ایہ  کہ  اس  فرض شناس جج کو  دن دیہاڑے    اپنا فرض  نبھاتے ہو ئے اسلام آباد کچہری میں بے دردی کے ساتھ  شہید کر دیا گیا۔   اسی حملے کی زد میں ملالہ کے دیس میں بسنے والی  ایک اور ملالہ   آئی  اور ان درندوں کی سفاکی کا نشانہ بنی مگر اس بار یہ ملالہ جس کا نام  فضہ تھا وہ  اپنی جان کی بازی ہار گئی ۔  پاکستان کی یہ  بہادربیٹی  جس نے  ایک سال قبل  اسلام کے ایک ادارے  سکول آف لاء سے  ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی  اور  جس  کی آنکھوںمیں سنہرے مستقبل  کے حسین خواب   سجے تھے ۔  جو کہ برطانیہ کی    یونیورسٹی آف نارتھ کمبریا  سے انٹرنیشنل   سٹڈی میں میں ماسٹر کرنے کا ارادہ رکھتی تھی  ۔ فصہ نے پنجاب با ر کونسل کی رکنیت  کیلئے  اپلائی بھی کر رکھا تھا۔  فضہ جو  دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی جس کے دونوں بھائی دوبئی ہو تے ہیں جبکہ فضہ اپنی  امی ابو کے ساتھ  پاکستان میں رہتی تھی  ۔اپنے ماں باپ    کا خیال رکھنے والی  فضہ  اب جہان فانی کو آباد کر چکی ہے۔ لیکن   ابھی تو ٖفضہ کو   اپنے  مستقبل   کی روشن راہوں کا انتخاب کرنا تھا ۔ ابھی تو اسے  اپنے ماں باپ کے سپنوں کی تکمیل کرنی تھی ، ابھی تو  اس نے جوانی کی دہلیز پے قدم ہی رکھا تھا، ابھی تو  اسے اپنی  سہیلیوں کے ساتھ  اٹکیلیاں  کرنی تھی ،  ابھی تو اسے   زندگی کے پر لطف لمحات  سے   مسرور ہونا تھا ، ابھی تو اسے اپنے سب اودھورے  سپنے پورے کرنے تھےجو  اس  نے اپنی حسیں آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔  ابھی تو اسے پاکستان کے روشن چہرے کا جھومر بننا تھا ، ابھی اپنے شاندار کیرئیر    کی  پگڈنڈیوں پے  سفر کرنا تھا۔  لیکن  فضہ کو کیا معلوم تھا کہ  اس کا پیارا پاکستان مجاہدین کا ملک بننے جا رہا ہے  حکومت وقت تو ان مجاہدین کے ساتھ مصروف  مزاکرات ہے  تھا  جہاں شریعت کے نفاذ کی         تیاریاں ہو رہی ہیں  جہاں فضہ جیسی  عظیم بیٹیوں  کی تعلیم حاصل کرنا ، جہاں  ایسی شجاع  بیٹیوں کے سکولوں اور کالجوں کو  دھماکوں سے اڑا  دینا    ان مجاہدین کے کیلئے عظیم   جہاد ہے ۔ جہاں  پولیو جیسی موذی مرض سے   معصوم بچوں کی زندگیوں  کو بچانے والی  عظیم ملالووں اور فضاووں پے  حملے کرنا   عین اسلام  کی خدمت ہے ۔  جہان ان مجاہدین  کی  حملوں کو شرعی  جواز فراہم  کرنے کیلئے    جناب منور حسن اور     مولانا   فضل الرحمان  جیسے  علماء  ہم وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔  جہان عمران خان جیسے سیاستدان  ان مجاہدین کو  مذہبی وزارتیں دینے جیسے مطالبات  پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ابھی یہ آگ لگی رہے گی ابھی اور میرے وطن کی  فضاوں کو اپنے لہو سے  قربانی پیش کرنی ہو گی ۔  ابھی      پاک وطن کے بیٹوں اور بیٹیوں کو    اور جانیں دینی ہونگی ابھی   انتظار کرنا ہو گا  اور لہو کا کیونکہ  مزاکرات  مزاکرات چل رہاے۔   ان تاریک راہوں  پے میرے ہم وطنوں کو چلنا ہے ابھی  اور مقتل  گا ہیں سجانی  ہیں  ابھی شریعت کا نفاد ہو نا باقی ہے ، ابھی مقتل گاہ سے فضہ جیسی معصوم  روحیں  بقول فیض احمد فیض یہی پکار رہی ہو نگی

 ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم،
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے،
تیرے ہاتوں‌کی شمعوں کی حسرت میں ہم،
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے


No comments:

Post a Comment