Thursday, March 13, 2014

قطر اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات

قطر اور سعودی عرب کے  کشیدہ تعلقات 


خلیجی ممالک کی مشترکہ تنطیم  گلف کاپوریشن کونسل   میں شامل  تین  اہم ممالک  جن میں  سعودی عرب ،بحرین اور  متحدہ  عرب امارات شامل   ہیں نے قطر پر الزام لگایا ہے کہ  قطر مشترکہ سکیورٹی  پالیسی   معاہدہ پر عمل درآمد نہیں کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ   یہ بھی الزام لگایا ہے کہ قطر ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہاہے۔  برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق  ان تینوں ممالک نے اپنے سفیر قطر سے واپس بلا لیے ہیں جبکہ قطر نے ان ممالک کے اس اقدام پر   نہایت تعجب اور مایوسی  کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے سفیر ان ممالک سے واپس نہیں بلائے گا ۔   عرب ممالک  کے اس اقدام سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ گئی ہے کہ   گلف کاپوریشن  کونسل میں شامل ممالک  دو  دھڑوں میں منقسم ہو چکے ہیں ۔ ایک دھڑے  کی نمائندگی قطر کر رہا ہے جبکہ دوسرےدھڑے  کی باگ ڈور سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے ۔  قطر کے دھڑے میں اس وقت   ظاہر ی طور پر  عمان اور دبئی  شامل نظر آتے ہیں جبکہ سعودی دھڑے  میں بحرین ،  کویت ، متحدہ عرب  امارات خصوصا" ابو ظہبی   شریک نظر آتے ہیں۔  یہ بات کچھ عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی کہ  قطر اپنی ترجیحات کو سعودی عرب سے علیحدہ    کررہا ہے ۔سعودی عرب  اور دیگر ممالک کا یہ الزام کہ  قطر  مشترکہ سکیورٹی معاہدہ پر عمل نہیں کر رہا   صرف ایک بہانہ نظر آتا ہے جبکہ  سچ یہ ہے  علاقے میں بہت اہم نوعیت کے مسائل جس میں ایران  سے تعلقات، شام کی خانہ جنگی  اور مصر میں مرسی حکومت کی برطرفی اور  خطے میں بدلتے امریکی مفادات  ان کشیدہ تعلقات کی بڑی وجہ نظر آتے ہیں ۔  ایک اہم عرب ملک  شام کے اند ر خانہ جنگی  کے ذریعے  ترکی، سعودی عرب ، قظر   ، اور اردن سمیت سب بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے خواہاں ہیں مگر  ترکی اور قطر وہاں اخوان المسلمون کے  مسلح گروپ کو شام کی حکومت کے بعد اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ سعودی عرب   اسلامک  جنگجووں جن کو مختلف ممالک سے  اکٹھا کیا گیا ہے ان کی بھر پور حمایت اور پشت پناہی کر تا دکھائی دیتاہے۔  برطانوی خبر رساں ادارے  سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار ڈاکٹر ممتاز احمد نے بھی  ان خلیجی ممالک کے درمیان مفادات کی خاطر بڑھتی  ہوئی خلیج کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہے کہ قطر نے عرب خطے میں اپنا  اثرو روسوخ   پیدا کرنے کی  کوششیں شروع کر دی ہیں اور   قوی امکان ہے کہ قطر کی ان کوششوںمیں امریکی آشیر باد بھی حاصل ہے کیونکہ امریکہ کو اب سعودی عرب پر اس طرح کا  اعتماد   نہیں رہا جو کہ چند سال قبل تھا ۔ ایران کے ساتھ  جوہری معاملہ پر طے پانے والے  عبوری معاہدے  میں قطر نے کھل کر ایران کے پرامن ایٹمی حق کو  تسلیم کرنے کا  واشگاف اعلان بھی کیا جبکہ دبئی اور عمان بھی ایران کے ساتھ اچھے  کے خواہاں ہیں جبکہ سعودی عرب اور بحرین  وغیرہ   ایران کے ایٹمی پروگرام کے شدید مخالف ہیں ۔  سعودی عرب  ایران اور شام کے  معاملے پر پہلے ہی اوبامہ انتظامیہ سے ناراض ہے جس کا واضح ثبوت  سعودی عرب کا   اقوام متحدہ  کی سلامتی کونسل  کی غیر مستقل  نشست کو  چھوڑنا حالانکہ جس کے حصول کیلئے سعودی عرب کافی عرصہ تک تگ و دو کرتا رہا ہے اور اسی طرح برطانیہ میں سعودی سفیر کا  وہ بیان جس میں اس نے امریکہ کے طرز عمل پر خاصی تنقید کی تھی۔   قطر اور سعودی عرب کے تعلقات کو کشیدہ بنانے میں ایک بڑا عنصر  محمد مرسی کی منتخب حکومت کی برطرفی ہے۔ قطر اور ترکی   مصری اخوان المسلمون کی بھر پور حمایت کر رہے ہیں جبکہ سعودی عرب مرسی حکومت کی برطرفی اور جنرل السیسی کے اقدامات کی پوری  طرح حمایت کر رہا ہے۔ مصر  میں مرسی دور میں فلسطین کی  نمائندہ جماعت حماس کی مدد اور حمایت کی گئی اور حماس کے پولیٹکل ونگ کے سر براہ  خالد مشل نے شام  کو ترک کر کے مصر میں سکونت اختیار کر لی تھی لیکن موجودہ فوجی اور عدلیہ کے اشتراک سے بننے والی حکومت نے حماس ، حزب اللہ کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیموں کے فہرست میں شامل کر لیا ہے  اور عرب عوام اور خصوصا" مصری عوام ان اقدامات کے حوالے سے سعودی عرب کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں   اور گمان غالب یہی ہے کہ یہ سب سعودی ایماء پر مصری حکومت کر رہی ہے ۔  لہذا مصر کے حالیہ بحران پر قطر کی حکومت اور قطری مشہور ٹی وی نیوز چینل الجزیرہ   کھلے لفظوں   مین اخوان المسلمون کی حمایت کر رہے ہیں اور الجزیرہ  کے انگریزی اور عربی  نشریات پوری دینا میں  دیکھی جاتی ہیں  اور ناظرین خاص کر خلیجی ممالک کے حالات واقعات  ، تجزیوں اور تبصروں کیلئے ان نشریات کو  شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں   ۔  بی بی سی  اردو  سروس   تین عرب ممالک کے  قطر کے خلاف حالیہ اقدام کو سعودی عرب اور قطر کی سر د جنگ قرار رہی ہے اور آنے والے دنوں میں عین ممکن ہے کہ  ان ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی دیکھنے میں آئے گی ۔ موجودہ صورت حال یہ پتہ دے رہی ہے کہ   مشرق وسطی اور خلیج میں  بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں  خاص طور پر سعودی عرب اوربحرین کے حوالے سے کیونکہ بحرین میں  پہلے ہی عوام کی اکثریت  آل خلیفہ  خاندان کی  غیر منصفانہ   پالیسیوں کے خلاف  پچھلے تین سال سے سراپا احتجاج ہیں ۔  خطے کے دیگر ممالک جن میں شام، لبنان ، عراق ، ترکی اور ایران بھی سعودی  پالیسیوں اور  سعودی اقدامات  سے شدید نالاں نظر آتے ہیں ۔ لیکن  پاکستان کے تناظر میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ  آیا   پاکستان   اپنی خارجہ پالیسی خلیجی ممالک   کے حوالے سے کن خطوط پر استور کرتا ہے  ۔   پچھلے ہفتے  دفتر خارجہ کی ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں   بحرین  میں تین  سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی      پر زور مذمت کی ہے  لیکن آل خلیفہ اور سعودی عرب کی  بحرین میں تعنیات فوج  مسلسل تین سال سے پر امن  بحرینی مظاہرین کو کچل رہی ہیں اور سیکڑوں مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں  اور ہزاروں قیدو بند کی  سختیاں برداشت کر رہے ہیں جن میں   بحرین کی سب سے بڑی  اپوزیشن جماعت الوفاق کے قیادت بھی شامل ہے مگر پاکستانی  حکومت کا  اس  حوالے سے کبھی کوئی مذمتی بیان  سننے کو نہیں ملا  جس پر  پاکستان کی جمہوریت پسند  عوام کو  پاکستان  کی موجودہ  خارجہ پالیسی پر  سخت    شبہات ہیں  اور دوسرا  اہم  نکتہ یہ ہے کہ آیا    پاکستان جو کہ   پاک ایران گیس پائپ لائن  منصوبے سے  پہلے ہی انحراف  کر چکا ہے  اب کیا   سعودی عرب اور قطر کی حالیہ سرد جنگ کے نتیجے سعودی عرب کی  ناراضگی  کی صورت مٰیں  قطر کے ساتھ  طے پانے والے  ایل این جی اور ایل پی جی گیس کے معاہدوں   کی تکمیل   کر پائے گا یا نہیں  اور کس   طرح اپنی انرجی  مشکلات پر قابو پا سکے گا ۔

No comments:

Post a Comment