Wednesday, October 29, 2014

ایبولا وائرس، حقیقت یا سازش

ایبولا وائرس  جو اس وقت  عالمی میڈیا  کی شہہ سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے اور اس وائرس  کی تباہ کاریوں   اور اس سے ہونے والی اموات کا چرچا  زبان زد عام ہے ۔
یہ انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایساوائرس  ہے جس میں مبتلا مریضوں میں دو سے تین ہفتے کے اندر بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد میڈیا رپورٹس کے مطابق  تقریبا" ساڑھے تین ہزار  ہیں جبکہ سات ہزار کے لگ بھگ افراد اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس مرض  میں مبتلا افراد کا تعلق افریقہ کے بظاہر غریب ممالک جن میں سرالیون، لائیبریا اور گنی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ یہ ممالک اپنے معدنی وسائل کے سبب اندرونی خانہ جنگی اور عدم استحکام کا شکار ہیں   اور مغربی  خصوصا" امریکی  کاروباری کمپنیاں اور حکومیتں ان ممالک کے معدنی وسائل پر اپنی نظریں کئی عشروں سے جمائے ہوئے ہیں ۔  حال ہی میں امریکی صدر براک اوبامہ نے ایبولا وائرس کو دنیا کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا ہے  اور ساتھ ساتھ یہ بات  ہی پوری دنیا کو باور کرائی جا رہی ہے کہ ایبولا وائرس کا مر ض لاعلاج اور اس کی ویکسین ابھی تک دریافت یا تیار نہیں کی گئی ہے۔ ایسے شدید بیانات وہ بھی  امریکی اور مغربی ممالک کی جانب سے مسلسل دیئے جا رہے ہیں جو کہ پوری دنیا میں خوف کی فضاء پیدا کر رہے ہیں اور ماضی قریب میں دیکھا جائے تو کچھ ایسی ہی فضاء  عالمی دہشت گردی کے حوالے سے پیدا کی گئی تھی اور اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان دہشت گرد  گروہوں کی پشت پناہی کے تانے بانے خود مغربی و امریکی حکومتوں سے ملتے نظر آ رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایبولا وائرس   کا مرض ان ممالک میں اچانک کیسے پھوٹ پڑا ہے جہاں پوری دنیا سے اقوام متحدہ  کے زیر نگرانی  امن افواج  تعینات ہیں  اور خود افریقی اور ایشیائی کمپنیاں جن میں چائنیہ سرفہرست ہیں معدنی ذخائر    کی تلاش اور کارروبار میں  دلچسپی لیتی نظر آتی ہیں۔  2001میں اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق   صرف سیرالیون میں ایک ملین سے زائد باشندے  داخلی طور پر بے گھر ہوئے  اور آج سیرالیون میں چار ملین افراد لاپتہ ہیں  اسی طرح لائیبریا  میں ایک اشاریہ پانچ ملین  اور انگولہ میں ایک اشاریہ سات ملین افراد لاپتہ ہیں جن کی تعداد ایبولا وائرس کے متاثرین سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان ممالک میں خانہ جنگی  کی بنیادی وجہ  روس اور امریکہ کی سرد جنگ بھی نظر آتی ہے۔1975 میں پرتگال سے آزادی حاصل کرنے کے بعد انگولہ  بھیانک خانہ جنگی سے دوچار ہواجو کہ 2001 تک جاری رہی آزادی کے لئے امریکہ کی حمایت یافتہ نیشنل یونین  اور  سوویت کی حمایت یافتہ پاپولر موومنٹ کے خلاف خونی جنگیں لڑیں گئیں۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق، 1999-2000 کے دوران جب کہ تصادم اپنے عروج پرتھا، تقریباً 2,600 لوگ روزانہ مررہے تھے۔کانگو نے سب سے زیادہ شرح اموات کا سامنا کیا ۔34 فیصد شرح اموات بچوں کی اور 47 فیصد شرح اموات خواتین اور بچوں کی ہے۔ ایک اہم بات کہ امریکی   فارماسیٹکل کمپنی   سنٹر فار  ڈیزز کنٹرول (سی ڈی سی ) نے ایبولا وائرس  کی ویکسین  کی تیاری، میڈیکل ٹیسٹ اور بائیو انجیئنرنگ  کیلئے  مجرمانہ طریقے سےاپریل 2010میں  حقوق ملکیت اور پیٹنٹ حاصل  کر لیے۔  سی ڈی سی  کے مطابق ایبولا وائرس کا کو ئی علاج دریافت  نہیں  ہو سکا جب کہ  حقیقت یہ ہے  2010 میں ایک  کلینکل رپورٹ کے مطابق   جو کہ دنیا بھر  کے میڈیکل میگزین میں شائع ہوئی تھی  جس میں ایبولاء وائرس کا موثر اور آسان علاج    بیان کیا گیا جو کہ وٹامن سی اور ایسکوربک ایسڈ  کی شکل میں دستیاب ہے ۔  ایبولاء وائرس   کے مرض کی علامات ملیریا، ہیضہ  جیسی ہوتی ہیں جس کو  تشخص نہیں کیا جاتا اور ان علامات جس میں سر درد، متلی، بخار  اور خون کے آنے   والے مریضوں کو ایبولاء وائرس کا مریض ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔  9ستمبر 2014 کو لائیبریا کے کثیر الاشاعت  اخبار"  لائبیریا آبزرور" میں ڈاکٹر  سیرل بیڈیرک  جو لائبیریا یونیورسٹی میں پلانٹ پیتھالوجی  میں پروفیسر ہیں نے اپنے مضمون میں دعوٰی کیا ہے کہ ایبولاء وائرس کو جنیاتی طور پر تبدیل کیا گیا ہے اور مین میڈ  جرثیم ہے جو کہ امریکی ادویات ساز کمپنوں کی امریکی فورسز کے ساتھ ملی بھگت کا نتیجہ ہے جو کہ درحقیقت افریقی ممالک کے ساتھ کے ایک سازش ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں یہ بات بھی واضح کی ہے کہ اس پوری سازشی کھیل کا ایک اور کھلاڑی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش  ہے ۔  امریکی میڈیکل جریدے نے  16اپریل 2013کو سی آئی اے اور ڈبلیو ایچ او  کے سازشی گٹھ جوڑ کو  اپنے مضمون  
 میں  بے نقاب کیا ۔ اس مضمون میں  امریکی ملٹری How the CIA Fake Vaccination Campaign Endanger US ALL”  

کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن  کے ویکسین  کے عالمی پروگرام  میں مداخلت کو واضح کیا گیا ہے ۔ اس پروگرام کو پاکستان اور نائجیریا میں عملی جامہ پہنایا گیا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم  انسپکشن کمیشن   کے سربراہ ڈاکٹر امجد نون نے تصدیق کی تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس ویکسین پروگرام کو معطل کر دیا تھا۔ مضمون  کے مطابق  امریکی محکمہ ڈیفنس (ڈی او ڈی) نے   ایک کنیڈین ادویات ساز کمپنی "تکمیرا"  کو  ایک سو چالیس ملین ڈالر کا  ایبولاء وائرس پر تحقیق کرنے کا ٹھیکہ دیا  جس میں  ایبولاء وائرس  کی صحت مند انسانوں میں  ٹیسٹ کے کرنے کیلئے منتقلی تھی۔  مختلف ذرائع سے یہ بات  سامنے آئی ہے کہ امریکی حکومت نے " وئرل فیور بائیوٹیرورزم ریسرچ لیبارٹری "  سیرالیون کے شہر کینیما میں قائم  کی ہوئی ہے جہاں سے  پہلا ایبولاء وائرس کا کیس  کوئی سات ماہ قبل رپورٹ ہوا۔ اسی طرح سی ڈی سی ایک طرف کہہ رہا ہے کہ ایبولاء کا مرض لاعلاج ہے جبکہ امریکہ میں رپورٹ ہونے  کیسز  کو بر وقت علاج کیا جا رہا ہے اور وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ اس پوری بحث میں یہ بات واضح ہے کہ افریقی و ایشیائی ممالک  بڑی طاقتوں کی باہمی چپقلش کا ہمیشہ شکار رہے ہیں چاہے وہ خانہ جنگی ہویا پھر موذی امراض ۔ 

No comments:

Post a Comment