Monday, February 24, 2014

یہ وہ سحر تو نہیں !!

یہ وہ سحر تو نہیں !!

تحریک انصاف  کے چیئرمین عمران خان نے الیکشن 2013 میں نوجوان طبقے کو اپنے جوش خطابت اور منفرد انداز کے جلسوں جن میں پوپ میوزک کے اسٹاز آ کر اپنے فن کا مظاہرہ  کیاکرتے تھے  اور پا کستانی خصوصا" کے پی کے اور  پنجاب کے نوجوانوں کو  خوب متاثر کیا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے تحریک  انصاف  کی انتخابی مہم میں دل کھول کر ڈونیشن دئیں۔ عمران خان جو ایک روشن خیال اور ماڈریٹ طبقے کو خاصی حد تک متاثر کیا ہے اور پوش ایریاز کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے انتہائی فعال طریقے سے الیکشن میں حصہ لیا بلکہ تحریک انصاف کی انتخابی مہم کو بھی کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ الیکشن کے نتائج بھی تحریک انصاف کیلئے خاصے حوصلہ کن دکھائی دیئے اور مرکز میں34نشستیں بشمول  مخصوص حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختونخواہ  اسمبلی میں بھی اکژیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ  کیاروشن خیال اور تعلیم یافتہ طبقے کے ووٹوں کو حاصل کرنے والی تحریک  انصاف نے ان کی نمائندگی کا حق ادا کرنے میں  کیادر حقیقت    انصاف کیا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو حقیقت اسکے بر عکس نظر آتی ہے ۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی رجعت پسند ، تکفری سوچ کے حامل دہشتگردوں کی ببانگ دہل حمایت کرنا شروع کر دی اور جماعت اسلامی جو  کہ  سخت  مذہبی خیالات کی حامل جماعت ہے اور جنگجونہ کردار کی مالک  رہی ہے اس کو اپنا نہ صرف  صوبائی حکومت سازی میں اتحادی بنایا بلکہ انہی کی سوچ پر اپنی پالیسیوں کو بھی مرتب کر رہی ہے۔ اس کا واضح ثبوت طالبان کا اپنی مزاکراتی کمیٹی میں عمران خان اور جماعتی اسلامی کے پروفیسر ابراہیم کو اپنا نمائندہ مقرر کرنا تھا۔ جو کہ درحقیقت اس بات کی عکاسی  ہے کہ عمران خان  نے  الیکشن میں ووٹ حاصل کر کے  اور اپنے  بلند بنگ دعووں   کے ذریعے  پاکستان کے روشن فکر اور ماڈریٹ افراد کے ساتھ صریحا" دھوکہ دہی کی ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن جو کہ طالبان کی محبت میں اس قدر اسیر ہیں کہ وہ اب آئین پاکستان کی خلاف کھل کر بات کر نے  والوں کی وکالت کرنے کے ساتھ افواج پاکستان پر بھی زبان دازی کرتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں اس نے اسلام کی مسلمات کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر کے تو ہین رسالت اور توہین اہلبیت کا ارتکاب بھی کیا ہے جس پر تمام محبان رسول ﷺ اور  اہلبیت  بشمول سنی  و شیعہ عوام نے اپنے شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کا ایسی جماعت کی ہاں میں ہاں ملانے کا مقصد پاکستان کے  روشن فکرعوام کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے کیونکہ طالبان مخالف عوام کی اکثریت نے تحریک انصاف کو دل کھول کر ووٹ دیئے تھے۔ اگر تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ کی کاررکردگی پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی عوام کو کو ئی ریلیف نہیں مل سکا ہے اور وہ نیا پاکستان کا خواب چکناچور ہوتا نظر آ رہا ہے۔  تحریک انصاف کی پذیرائی میں کمی کی  واضح مثال ضمنی انتخابات میں  پشاور میں غلام احمد بلور کی کامیابی اور میانوالی میں عمران خان کو اپنی آبائی نشست سے ہاتھ دھونے پڑے۔ خود تحریک  انصاف میں  الیکشن  میں  دی گئی امدادی  رقوم  کے اخراجات کے اندر بد عنوانی کے الزامات لگنے  کےواقعات منظر عام پر آنے شروع ہو چکے ہیں۔ عمران خان جو کہ پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت تبدیلی کا نشان بن کر ابھرے تھے لیکن افسوس صد افسوس کہ  طالبان کی اندھی حمایت اور اپنی صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اب  ان کے اپنے ووٹرز  بقول شاعر  یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ
یہ وہ سحر تو نہیں۔۔!!
عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ وہ ایک ماڈریٹ ، خود مختار اور معاشی طور پر مضبوط پاکستان کی بات کرتے کرتے کیوں اس قدر طالبان کے حامی بن گئے ہین کہ    لوگ اب  ان کو طالبان  خان کا لقب دیتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں اور اس بات کا اقرار   خان  صاحب  خود بھی میڈیا کے سامنے کر چکے ہیں ۔ عمران خان اور پارٹی کے دیگر اکابرین کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ہو گا کہ طالبان کی حمایت در حقیقت ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے کھلی غداری ہے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہچانے کے مترادف ہے ۔  تاریخ  کسی ظالم اور جابر کی حمایت کرنے والوں کو معاف نہیں کیا کرتی ۔ اگر تحریک انصاف طالبان کی حمایت کی پالیسی سے دستبردار نا ہوئی تو اس کا انجام بھی دیگر  شدت پسند مذہبی جماعتوں جیسا ہوسکتا ہے   جن کو  عوام    کی اکثریت   ہمیشہ مسترد کرتی آئی ہے۔     

No comments:

Post a Comment