Wednesday, October 29, 2014

ایبولا وائرس، حقیقت یا سازش

ایبولا وائرس  جو اس وقت  عالمی میڈیا  کی شہہ سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے اور اس وائرس  کی تباہ کاریوں   اور اس سے ہونے والی اموات کا چرچا  زبان زد عام ہے ۔
یہ انسانوں اور جانوروں میں پایا جانے والا ایک ایساوائرس  ہے جس میں مبتلا مریضوں میں دو سے تین ہفتے کے اندر بخار، گلے میں درد، پٹھوں میں درد اور سردرد جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور وہ قے، ڈائریا اور خارش وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد میڈیا رپورٹس کے مطابق  تقریبا" ساڑھے تین ہزار  ہیں جبکہ سات ہزار کے لگ بھگ افراد اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس مرض  میں مبتلا افراد کا تعلق افریقہ کے بظاہر غریب ممالک جن میں سرالیون، لائیبریا اور گنی ہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ یہ ممالک اپنے معدنی وسائل کے سبب اندرونی خانہ جنگی اور عدم استحکام کا شکار ہیں   اور مغربی  خصوصا" امریکی  کاروباری کمپنیاں اور حکومیتں ان ممالک کے معدنی وسائل پر اپنی نظریں کئی عشروں سے جمائے ہوئے ہیں ۔  حال ہی میں امریکی صدر براک اوبامہ نے ایبولا وائرس کو دنیا کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا ہے  اور ساتھ ساتھ یہ بات  ہی پوری دنیا کو باور کرائی جا رہی ہے کہ ایبولا وائرس کا مر ض لاعلاج اور اس کی ویکسین ابھی تک دریافت یا تیار نہیں کی گئی ہے۔ ایسے شدید بیانات وہ بھی  امریکی اور مغربی ممالک کی جانب سے مسلسل دیئے جا رہے ہیں جو کہ پوری دنیا میں خوف کی فضاء پیدا کر رہے ہیں اور ماضی قریب میں دیکھا جائے تو کچھ ایسی ہی فضاء  عالمی دہشت گردی کے حوالے سے پیدا کی گئی تھی اور اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان دہشت گرد  گروہوں کی پشت پناہی کے تانے بانے خود مغربی و امریکی حکومتوں سے ملتے نظر آ رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایبولا وائرس   کا مرض ان ممالک میں اچانک کیسے پھوٹ پڑا ہے جہاں پوری دنیا سے اقوام متحدہ  کے زیر نگرانی  امن افواج  تعینات ہیں  اور خود افریقی اور ایشیائی کمپنیاں جن میں چائنیہ سرفہرست ہیں معدنی ذخائر    کی تلاش اور کارروبار میں  دلچسپی لیتی نظر آتی ہیں۔  2001میں اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق   صرف سیرالیون میں ایک ملین سے زائد باشندے  داخلی طور پر بے گھر ہوئے  اور آج سیرالیون میں چار ملین افراد لاپتہ ہیں  اسی طرح لائیبریا  میں ایک اشاریہ پانچ ملین  اور انگولہ میں ایک اشاریہ سات ملین افراد لاپتہ ہیں جن کی تعداد ایبولا وائرس کے متاثرین سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ان ممالک میں خانہ جنگی  کی بنیادی وجہ  روس اور امریکہ کی سرد جنگ بھی نظر آتی ہے۔1975 میں پرتگال سے آزادی حاصل کرنے کے بعد انگولہ  بھیانک خانہ جنگی سے دوچار ہواجو کہ 2001 تک جاری رہی آزادی کے لئے امریکہ کی حمایت یافتہ نیشنل یونین  اور  سوویت کی حمایت یافتہ پاپولر موومنٹ کے خلاف خونی جنگیں لڑیں گئیں۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق، 1999-2000 کے دوران جب کہ تصادم اپنے عروج پرتھا، تقریباً 2,600 لوگ روزانہ مررہے تھے۔کانگو نے سب سے زیادہ شرح اموات کا سامنا کیا ۔34 فیصد شرح اموات بچوں کی اور 47 فیصد شرح اموات خواتین اور بچوں کی ہے۔ ایک اہم بات کہ امریکی   فارماسیٹکل کمپنی   سنٹر فار  ڈیزز کنٹرول (سی ڈی سی ) نے ایبولا وائرس  کی ویکسین  کی تیاری، میڈیکل ٹیسٹ اور بائیو انجیئنرنگ  کیلئے  مجرمانہ طریقے سےاپریل 2010میں  حقوق ملکیت اور پیٹنٹ حاصل  کر لیے۔  سی ڈی سی  کے مطابق ایبولا وائرس کا کو ئی علاج دریافت  نہیں  ہو سکا جب کہ  حقیقت یہ ہے  2010 میں ایک  کلینکل رپورٹ کے مطابق   جو کہ دنیا بھر  کے میڈیکل میگزین میں شائع ہوئی تھی  جس میں ایبولاء وائرس کا موثر اور آسان علاج    بیان کیا گیا جو کہ وٹامن سی اور ایسکوربک ایسڈ  کی شکل میں دستیاب ہے ۔  ایبولاء وائرس   کے مرض کی علامات ملیریا، ہیضہ  جیسی ہوتی ہیں جس کو  تشخص نہیں کیا جاتا اور ان علامات جس میں سر درد، متلی، بخار  اور خون کے آنے   والے مریضوں کو ایبولاء وائرس کا مریض ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔  9ستمبر 2014 کو لائیبریا کے کثیر الاشاعت  اخبار"  لائبیریا آبزرور" میں ڈاکٹر  سیرل بیڈیرک  جو لائبیریا یونیورسٹی میں پلانٹ پیتھالوجی  میں پروفیسر ہیں نے اپنے مضمون میں دعوٰی کیا ہے کہ ایبولاء وائرس کو جنیاتی طور پر تبدیل کیا گیا ہے اور مین میڈ  جرثیم ہے جو کہ امریکی ادویات ساز کمپنوں کی امریکی فورسز کے ساتھ ملی بھگت کا نتیجہ ہے جو کہ درحقیقت افریقی ممالک کے ساتھ کے ایک سازش ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں یہ بات بھی واضح کی ہے کہ اس پوری سازشی کھیل کا ایک اور کھلاڑی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش  ہے ۔  امریکی میڈیکل جریدے نے  16اپریل 2013کو سی آئی اے اور ڈبلیو ایچ او  کے سازشی گٹھ جوڑ کو  اپنے مضمون  
 میں  بے نقاب کیا ۔ اس مضمون میں  امریکی ملٹری How the CIA Fake Vaccination Campaign Endanger US ALL”  

کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن  کے ویکسین  کے عالمی پروگرام  میں مداخلت کو واضح کیا گیا ہے ۔ اس پروگرام کو پاکستان اور نائجیریا میں عملی جامہ پہنایا گیا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم  انسپکشن کمیشن   کے سربراہ ڈاکٹر امجد نون نے تصدیق کی تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس ویکسین پروگرام کو معطل کر دیا تھا۔ مضمون  کے مطابق  امریکی محکمہ ڈیفنس (ڈی او ڈی) نے   ایک کنیڈین ادویات ساز کمپنی "تکمیرا"  کو  ایک سو چالیس ملین ڈالر کا  ایبولاء وائرس پر تحقیق کرنے کا ٹھیکہ دیا  جس میں  ایبولاء وائرس  کی صحت مند انسانوں میں  ٹیسٹ کے کرنے کیلئے منتقلی تھی۔  مختلف ذرائع سے یہ بات  سامنے آئی ہے کہ امریکی حکومت نے " وئرل فیور بائیوٹیرورزم ریسرچ لیبارٹری "  سیرالیون کے شہر کینیما میں قائم  کی ہوئی ہے جہاں سے  پہلا ایبولاء وائرس کا کیس  کوئی سات ماہ قبل رپورٹ ہوا۔ اسی طرح سی ڈی سی ایک طرف کہہ رہا ہے کہ ایبولاء کا مرض لاعلاج ہے جبکہ امریکہ میں رپورٹ ہونے  کیسز  کو بر وقت علاج کیا جا رہا ہے اور وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ اس پوری بحث میں یہ بات واضح ہے کہ افریقی و ایشیائی ممالک  بڑی طاقتوں کی باہمی چپقلش کا ہمیشہ شکار رہے ہیں چاہے وہ خانہ جنگی ہویا پھر موذی امراض ۔ 

Thursday, March 13, 2014

میرٹ کے پاسباں حکمران

میرٹ کے پاسباں حکمران 

مسلم لیگ (ن) نے الیکشن 2013 میں بہت بلند و بانگ دعووں کے ساتھ اپنی انتخابی مہم کا آغار کیا اور پنجاب کے خادم اعلی قومی اخبارات میں اپنی حکومتی کارکردگی کے اشتہارات میں میں دو باتوں کا تذکرہ بڑی شدومد کے ساتھ کرتے نظر آتے تھے۔   اشتہارات میں بڑے میاں صاحب کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا تھا " بات اصول کی" اور چھوٹے میاں صاحب کی تصویر کے ساتھ یہ الفاظ درج ہوتے تھے " میرٹ اور صرف میرٹ"۔ پیپلزپارٹی کی کرپشن اور نا اہلی سے ستائی  پاکستانی بالخصوص  پنجاب کی جذباتی قوم ان دلفریب نعروں پر دل فریفتا ہو ئی اور الیکشن میں دل کھول کر میاں صاحبان کو بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اسمبلیوں میں پہنچا دیا۔ اب قوم مطمن ہو گئی کہ قوم کا عظیم نجات دہندہ میاں نواز شریف صاحب اس دہشتگردی، مہنگائی اور بیروز گاری سے پسی ہوئی عوام  کو چند دنوں میں  پرسکون اور آسودہ حال زندگی کی راہوں پر گامزن کر دے گا اور پوری دنیا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھے گی۔ اب جبکہ عوامی حکومت کو تقریبا" ایک سال ہونے کے قریب ہے، کسی ایک دعوی کی بھی تکمیل ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی بلکہ دہشتگردوں کو مزاکرات کی آڑ  میں قتل و غارت گری کا عملا" سرکاری لائسنس دے دیا گیا ہے ، پہلے سے بیرونی قرضوں تلے دبی قوم کو مزید قرضوں میں دبایا جا رہا ہے اور مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی بجاۓ  مزید ٹیکسوں اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے اس جذباتی قوم  کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اور سفید پوشی کا بھرم رکھنا در کنار ہوتا جا رہا ہے۔ اب کچھ بات ہو جاۓ اصول اور عدلیہ کی آزادی کی دعوی دار مسلم لیگ (ن) کی، جس نے اقتدار میں   آتے ہی مختلف  محکموں کے سر برہان کے ساتھ پنگے لینے کا کھیل  شروع کر دیا۔ جس کا آغاز نادرا کے چیئرمین طارق ملک کی برطرفی سے ہو ا جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر  ووٹر لسٹوں میں ووٹروں کے انگوٹھوں کی ویریفیکیشن کا عمل شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں انگوٹھوں کے نشانات نادرا کے ریکارڈ سے میچ ہی نہیں کرتے۔ اس کے بعد پیمرا کے چیرمیئن کو کرپشن کے الزامات کی بنا پر  برطرف کیا اور اس کے  ساتھ ہی دیگر اداروں کے سربراہان کو برطرف کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جن میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان، اٹارنی جنرل آف پاکستان، گورنر اسٹیٹ بنک  کے علاوہ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین جناب ذکا اشرف بھی اس کی زد میں آۓ۔ان میں سے کچھ سربراہان نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان افسران کی برطرفیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوۓ ان کو اپنے عہدوں پر بحال کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ۔ بات اصول  کی اور میرٹ اور صرف میرٹ کی رٹ لگانے والی جماعت کے اصولوں اور میرٹ کی کلی اسلام آباد ہائی کورٹ  نے اپنے فیصلوں کی بدولت عوام کے سامنے کھول کے رکھ دی۔ لیکن حکومت نے اس کے باوجود اداروں کے سربراہوں کے ساتھ پنگے لینے کا کھیل ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے اور چیئرمین نادرا حکومتی دباو کو برداشت نا کر سکے اور خود ہی  بعد میں استعفی دے دیا جبکہ دیگر  ہائی کورٹ کے حکم پر بحال ہونے والے افسران پہ  تا حال حکومتی انتقام کی ننگی تلوار سر پہ لٹک رہی ہے۔   کچھ عرصہ  قبل عدالت کے حکم پر  بحال ہو نے والے چیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکا اشرف جس نے بگ تھری سازش کے خلاف اصولی اور عوامی موقف اختیار کرتے ہو ۓ پاکستان کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا۔ حالانکہ اسے بگ تھری کی حمایت  کرنے کے بدلے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی صدارت  کی پیشکش بھی کی گئی تھی  جسے اس نے ٹھکرا دیا ۔ اس احسن اقدام کے بعد جیسے ہی وطن واپس لوٹے تو میرٹ اور اصولوں کے ترجمان وزیر اعظم پاکستان جناب نوار شریف نے  بگ تھری کے خلاف موقف اختیار کرنے پر ایک داد تحسین  کچھ اس طرح دی کہ چیئرمین ذکاء اشرف سمیت  پورے کرکٹ بورڈ کو ہی تحلیل کر دیا اور عدلیہ کے حالیہ فیصلے کی بھی کوئی پروا نہیں کی۔ گذشتہ  ہفتے  اسلام آبادکچہری میں ہونے والے خود کش کیس میں  شہید ہونے والے جج رفاقت احمد اعوان  کے کیس کو ایک نیا رخ دینے میں  وزیر داخلہ  چوھدری نثار نے جو غیر منطقی  بیان دے کر  کیس میں ہونے والی  تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اسکی  مذمت وکلاء  برادری سمیت ہر پاکستانی کر رہا ہے  اور اسے وزیر موصوف کی   طالبان دوستی  سے تعبیر  کر رہا ہے ۔  اسی طرح  طالبان کے ساتھ ہونے  والے غیر آئینی مذاکرات میں  پاک فوج کو شامل کرنے کی سازش بھی   پاک فوج کی اعلی قیادت نے یہ کہہ کر  نا کام    کر دی کہ  کوئی اگر یہ سوچ رہا ہے کہ پاک فوج  قاتلوں اور مجرموں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائے گی تو یہ اس کی خام خالی ہے۔  اسی طرح  لاہور میں غربت اور بھوک کی وجہ  ہلاک ہونے والے دو معصوم بچوں کا معاملہ ہو یا پھر تھر میں  بھوک، اور موسمی  شدد  سے 160 بچوں کی اموات یہ  سب  بے ضمیر حکمرانوں کے حق حکمرانی کو  جھنجھوڑ  رہی ہیں۔  کسی نے کیا ٹھیک  ہی کہا ہے کہ مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ  ریٹنگ کا بھوکا میڈیا وینا ملک کی خبریں چلا رہا تھا، پنجاب کے نوجوان دنیا کا سب سے بڑا پرچم بنا رہے تھے،  سندھ کی عوام سندھ کلچر ڈے پر انگریزی گانے سن رہی تھی،  بڑے بڑے مذہبی راہنما شریعت کے نفاذ کی کوششیں کر رہے تھے، ملک کا قاضی آرٹیکل  6نافذ کرنے سعی کر رہا تھا عین اسی وقت  لاہور میں   ایک مجبور ماں بھوک کی وجہ سے  اپنے دو معصوم بچوں کا گلہ دبا رہی تھی اور تھر کے صحرا  مین ننھی جانیں بھوک کی وجہ سے اپنی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہی تھیں۔

قطر اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات

قطر اور سعودی عرب کے  کشیدہ تعلقات 


خلیجی ممالک کی مشترکہ تنطیم  گلف کاپوریشن کونسل   میں شامل  تین  اہم ممالک  جن میں  سعودی عرب ،بحرین اور  متحدہ  عرب امارات شامل   ہیں نے قطر پر الزام لگایا ہے کہ  قطر مشترکہ سکیورٹی  پالیسی   معاہدہ پر عمل درآمد نہیں کر رہا ہے اور ساتھ ساتھ   یہ بھی الزام لگایا ہے کہ قطر ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہاہے۔  برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق  ان تینوں ممالک نے اپنے سفیر قطر سے واپس بلا لیے ہیں جبکہ قطر نے ان ممالک کے اس اقدام پر   نہایت تعجب اور مایوسی  کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے سفیر ان ممالک سے واپس نہیں بلائے گا ۔   عرب ممالک  کے اس اقدام سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ گئی ہے کہ   گلف کاپوریشن  کونسل میں شامل ممالک  دو  دھڑوں میں منقسم ہو چکے ہیں ۔ ایک دھڑے  کی نمائندگی قطر کر رہا ہے جبکہ دوسرےدھڑے  کی باگ ڈور سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے ۔  قطر کے دھڑے میں اس وقت   ظاہر ی طور پر  عمان اور دبئی  شامل نظر آتے ہیں جبکہ سعودی دھڑے  میں بحرین ،  کویت ، متحدہ عرب  امارات خصوصا" ابو ظہبی   شریک نظر آتے ہیں۔  یہ بات کچھ عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی کہ  قطر اپنی ترجیحات کو سعودی عرب سے علیحدہ    کررہا ہے ۔سعودی عرب  اور دیگر ممالک کا یہ الزام کہ  قطر  مشترکہ سکیورٹی معاہدہ پر عمل نہیں کر رہا   صرف ایک بہانہ نظر آتا ہے جبکہ  سچ یہ ہے  علاقے میں بہت اہم نوعیت کے مسائل جس میں ایران  سے تعلقات، شام کی خانہ جنگی  اور مصر میں مرسی حکومت کی برطرفی اور  خطے میں بدلتے امریکی مفادات  ان کشیدہ تعلقات کی بڑی وجہ نظر آتے ہیں ۔  ایک اہم عرب ملک  شام کے اند ر خانہ جنگی  کے ذریعے  ترکی، سعودی عرب ، قظر   ، اور اردن سمیت سب بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے خواہاں ہیں مگر  ترکی اور قطر وہاں اخوان المسلمون کے  مسلح گروپ کو شام کی حکومت کے بعد اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ سعودی عرب   اسلامک  جنگجووں جن کو مختلف ممالک سے  اکٹھا کیا گیا ہے ان کی بھر پور حمایت اور پشت پناہی کر تا دکھائی دیتاہے۔  برطانوی خبر رساں ادارے  سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار ڈاکٹر ممتاز احمد نے بھی  ان خلیجی ممالک کے درمیان مفادات کی خاطر بڑھتی  ہوئی خلیج کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہے کہ قطر نے عرب خطے میں اپنا  اثرو روسوخ   پیدا کرنے کی  کوششیں شروع کر دی ہیں اور   قوی امکان ہے کہ قطر کی ان کوششوںمیں امریکی آشیر باد بھی حاصل ہے کیونکہ امریکہ کو اب سعودی عرب پر اس طرح کا  اعتماد   نہیں رہا جو کہ چند سال قبل تھا ۔ ایران کے ساتھ  جوہری معاملہ پر طے پانے والے  عبوری معاہدے  میں قطر نے کھل کر ایران کے پرامن ایٹمی حق کو  تسلیم کرنے کا  واشگاف اعلان بھی کیا جبکہ دبئی اور عمان بھی ایران کے ساتھ اچھے  کے خواہاں ہیں جبکہ سعودی عرب اور بحرین  وغیرہ   ایران کے ایٹمی پروگرام کے شدید مخالف ہیں ۔  سعودی عرب  ایران اور شام کے  معاملے پر پہلے ہی اوبامہ انتظامیہ سے ناراض ہے جس کا واضح ثبوت  سعودی عرب کا   اقوام متحدہ  کی سلامتی کونسل  کی غیر مستقل  نشست کو  چھوڑنا حالانکہ جس کے حصول کیلئے سعودی عرب کافی عرصہ تک تگ و دو کرتا رہا ہے اور اسی طرح برطانیہ میں سعودی سفیر کا  وہ بیان جس میں اس نے امریکہ کے طرز عمل پر خاصی تنقید کی تھی۔   قطر اور سعودی عرب کے تعلقات کو کشیدہ بنانے میں ایک بڑا عنصر  محمد مرسی کی منتخب حکومت کی برطرفی ہے۔ قطر اور ترکی   مصری اخوان المسلمون کی بھر پور حمایت کر رہے ہیں جبکہ سعودی عرب مرسی حکومت کی برطرفی اور جنرل السیسی کے اقدامات کی پوری  طرح حمایت کر رہا ہے۔ مصر  میں مرسی دور میں فلسطین کی  نمائندہ جماعت حماس کی مدد اور حمایت کی گئی اور حماس کے پولیٹکل ونگ کے سر براہ  خالد مشل نے شام  کو ترک کر کے مصر میں سکونت اختیار کر لی تھی لیکن موجودہ فوجی اور عدلیہ کے اشتراک سے بننے والی حکومت نے حماس ، حزب اللہ کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیموں کے فہرست میں شامل کر لیا ہے  اور عرب عوام اور خصوصا" مصری عوام ان اقدامات کے حوالے سے سعودی عرب کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں   اور گمان غالب یہی ہے کہ یہ سب سعودی ایماء پر مصری حکومت کر رہی ہے ۔  لہذا مصر کے حالیہ بحران پر قطر کی حکومت اور قطری مشہور ٹی وی نیوز چینل الجزیرہ   کھلے لفظوں   مین اخوان المسلمون کی حمایت کر رہے ہیں اور الجزیرہ  کے انگریزی اور عربی  نشریات پوری دینا میں  دیکھی جاتی ہیں  اور ناظرین خاص کر خلیجی ممالک کے حالات واقعات  ، تجزیوں اور تبصروں کیلئے ان نشریات کو  شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں   ۔  بی بی سی  اردو  سروس   تین عرب ممالک کے  قطر کے خلاف حالیہ اقدام کو سعودی عرب اور قطر کی سر د جنگ قرار رہی ہے اور آنے والے دنوں میں عین ممکن ہے کہ  ان ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی دیکھنے میں آئے گی ۔ موجودہ صورت حال یہ پتہ دے رہی ہے کہ   مشرق وسطی اور خلیج میں  بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں  خاص طور پر سعودی عرب اوربحرین کے حوالے سے کیونکہ بحرین میں  پہلے ہی عوام کی اکثریت  آل خلیفہ  خاندان کی  غیر منصفانہ   پالیسیوں کے خلاف  پچھلے تین سال سے سراپا احتجاج ہیں ۔  خطے کے دیگر ممالک جن میں شام، لبنان ، عراق ، ترکی اور ایران بھی سعودی  پالیسیوں اور  سعودی اقدامات  سے شدید نالاں نظر آتے ہیں ۔ لیکن  پاکستان کے تناظر میں غور طلب نکتہ یہ ہے کہ  آیا   پاکستان   اپنی خارجہ پالیسی خلیجی ممالک   کے حوالے سے کن خطوط پر استور کرتا ہے  ۔   پچھلے ہفتے  دفتر خارجہ کی ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں   بحرین  میں تین  سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی      پر زور مذمت کی ہے  لیکن آل خلیفہ اور سعودی عرب کی  بحرین میں تعنیات فوج  مسلسل تین سال سے پر امن  بحرینی مظاہرین کو کچل رہی ہیں اور سیکڑوں مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں  اور ہزاروں قیدو بند کی  سختیاں برداشت کر رہے ہیں جن میں   بحرین کی سب سے بڑی  اپوزیشن جماعت الوفاق کے قیادت بھی شامل ہے مگر پاکستانی  حکومت کا  اس  حوالے سے کبھی کوئی مذمتی بیان  سننے کو نہیں ملا  جس پر  پاکستان کی جمہوریت پسند  عوام کو  پاکستان  کی موجودہ  خارجہ پالیسی پر  سخت    شبہات ہیں  اور دوسرا  اہم  نکتہ یہ ہے کہ آیا    پاکستان جو کہ   پاک ایران گیس پائپ لائن  منصوبے سے  پہلے ہی انحراف  کر چکا ہے  اب کیا   سعودی عرب اور قطر کی حالیہ سرد جنگ کے نتیجے سعودی عرب کی  ناراضگی  کی صورت مٰیں  قطر کے ساتھ  طے پانے والے  ایل این جی اور ایل پی جی گیس کے معاہدوں   کی تکمیل   کر پائے گا یا نہیں  اور کس   طرح اپنی انرجی  مشکلات پر قابو پا سکے گا ۔

پاکستان میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان

پاکستان میں منشیات کا بڑھتا ہوا  رجحان


اقوام متحدہ کے ادارے یونائٹڈ نیشن آفس اور ڈرگ کرائم  ، نار کوٹکس کنٹرول ڈویژن  اور پاکستان بیور آف  اسٹیٹکس   نے  پاکستان میں منشیات   کے استعمال   کے حوالے سے کیے گئے سروے کی مشترکہ  سالانہ رپورٹ برائے سال  2013 ءجاری کی ہے۔  اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں  تقریبا" 60 لاکھ  70 ہزار افراد  منشیات کا استعمال کرتے ہیں  ۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ  منشیات استعمال کرنے والوں میں اکژیت  نوجوانوں کی ہے   جس میں 15 سال سے لے کر  64 سال کے افراد منشیات کے  عادی ہیں اور ان مٰیں سے  16لاکھ افراد جن میں خواتین کی اکثریت ہے وہ  ادویات  کو  بطور  نشہ استعمال کرتے ہیں ۔   رپورٹ کے مطابق پاکستان  ایچ آئی وی کے حوالے سے دنیا کے پہلے پندرہ ممالک میں شامل ہے اور  مجموعی طور پر 20 فیصد خواتین ہیں جو  منشیات کا استعمال کرتی ہیں ۔  برطانوی خبر رساں ادارے   کی خبر   کے مطابق  اقوام متحدہ کے ادارہ   یونائٹڈنیشن آفس اینڈ ڈرگ کرائم  کے پاکستان میں نمائندے  سنیرر گویڈز کا  کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں ایچ آئی وی کے بارے میں مفصل ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے اور  یہ  سروےمعلومات  پاکستان میں منشیات  کے استعمال کو روکنے اور علاج  کے حوالے سے کافی سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا  ہے کہ اس سلسلے میں طویل منصوبہ بندی،  سرمایہ کاری اور مربوط کوششوں کی اشد ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ادارہ کو حکومت پاکستان کی بھر پور معاونت کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ منشیات  کا زیادہ استعمال  خیبر پختون خواہ  صوبے مٰیں ہے  اور  پاکستان میں منشیات  کی ترسیل کے بڑےراستے بھی خیبر پختون خواہ اور  بلوچستان کے افغانستان  سے معلقہ سرحدی علاقے ہیں۔۔    برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق  افغانستان  اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں  دو سے  ڈھائی لاکھ  خاندان   پوست کی کاشت کرتے ہیں جس سے ان خاندانوں کو اوسطا" تین سے چار ہزار امریکی ڈالر سالانہ آمدنی حاصل ہوتی ہے  جو کہ افغانستان جیسے غریب ملک  کیلئے ایک   خطیر رقم ہے۔  توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کا مغربی بارڈر     انتہائی غیر محفوظ ہے اور وہاں حکومتی رٹ  بالکل نہیں ہے   جس کی بڑی وجہ طالبان کا افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں  موجودگی ہے جو نہ صرف پاکستان کی ریاستی رٹ کو چیلنج  کیے ہوئے ہیں بلکہ  منشیات کے کاروبا مٰیں بھی ملوث ہیں ۔ سینٹرل  ایشیاء آن لائن  نے اپنی ایک رپورٹ میں  خیبر میڈیکل کالج   کے  شعبہ کیمیائی تجزیہ اور فورنزک میڈیسن کے ایک کیمیائی تجزیہ کار پرویز خان  کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ   خودکش مشن پر روانہ ہونے سے قبل وہ ہیروئن، افیون، اسٹیرائڈز اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اسکے ثبوت   کے طور پر  پشاور کے نزدیک ادیزئی قومی لشکر اور پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے ایک متوقع خودکش بمبار کا معائنہ کیا گیا۔ اس کے خون میں ہیروئن کی بڑی مقدار تھی جو چند منٹ قبل انجکشن کے ذریعے لی گئی تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ادارے نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کو بیان کیا ہے کہ  پاکستان اور افغانستان میں طالبان  اور دیگر دہشت گردگروپس اپنی تخریبی کارروائیوں کیلئے  منشیات کی آمدنی کو استعمال کر رہے ہیں  اور سال 2012 تک طالبان کی منشیات سے حاصل ہونے والی آمدنی  70 کروڑ ڈالر کے قریب تھی ۔  جس کا آنے والے سالوں میں بڑھنے کا  اندیشہ ہے۔  اس حوالے سے افغانستان میں موجود نیٹو فورسز اور افغان فوج بھی  منشیات  کی کاشت کو روکنے میں کامیاب نظر نہیں آ رہی ہیں جو بہت  تشویش ناک امر ہے جبکہ پاکستان میں توحکومت وقت طالبان کے  ساتھ  مذاکرات کے عمل میں مصروف نظر آتی ہے اور حکومتی  رٹ کو بحال کرنے بجائے  ان علاقوں سے  طالبان کے مطالبے جس میں فوج کی  واپسی جیسی تجاویز    شامل ہیں پر غور و غوص کرتی ہو ئی نظر آتی ہے۔   اگر وہاں طالبان اور دیگر جرائم  پیشہ تنظمیں  طاقت ور ہو گئی تو پھر یہ منشیات  کی پیداوار اور  کاروبا ر  خطر ناک حد تک بڑھ سکتا ہے ۔ حکومت وقت کو مزاکرات    سے قبل ان پہلو وں کا بغورجائزہ لینا چاہیے آیا کہ  طالبان جو کہ قتل و غارت اور منشیات جیسے  گھناونے  جرائم میں ملوث  ہیں کیا وہ مزاکرات کے بعد ان سرگرمیوں کو ترک کر دیں گے ،  کون اس بات کی  گارنٹی دے گا   کہ وہ مزاکرت کے بعد   شریفانہ طرز عمل  اختیار کرپائیں گے۔  اسی طرح پاکستان  دیگر  حصوں میں منشیات کا بڑھتا ہو رجحان   بھی ایک بہت ہی غور طلب مسئلہ ہے  اور اس حوالے سے دیکھا جائے تو حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات نا ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہو نے والی اٹھارہویں ترمیم کے بعد  صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کو  منتقل کر دیا گیا ہے  جبکہ اس حوالےسے صوبائی حکومتوں کی استعداد کار  بڑھانے کی کو ئی مربوط کو شش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی کارکردگی اس حوالے سے   کو ئی لائق تحسین نظر نہیں آتی ہے۔  ۔ جرمن خبر راساں ادارے کے مطابق  اس مسئلے  کا  ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ   حکومت  کی مجرمانہ غفلت اور معاشرتی بے حسی کی بدولت اتنی بڑی  تعداد جو منشیات جیسی  لعنت کی عادی بن چکی  ہے  کے لئے علاج و معالجے اور بحالی کی سہولتیں بالکل ہی نا کافی نظر آتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے   حکومتی سطح پر صرف دو  چار  مراکز موجود ہیں جو کہ صرف بڑے شہروں میں ہیں   اور نجی ادارے بھی اس سلسلے میں کام ضرور کر رہے ہیں مگر وہاں اس لعنت سے چھٹکارے پانے  کیلئے  علاج اتنا مہنگا ہے کہ وہ عام آدمی وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔اس رجحان کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومتیں    بھی اس مسئلہ کی سنجیدگی کا احساس کریں اور اس پر قابو پالنے کیلئے  مناسب وسائل و اقدامات کو بروکار لائیں 

Saturday, March 8, 2014

خواتین کا عالمی دن اور امن مذاکرات


خواتین کا عالمی دن اور امن مذاکرات

 اقوام متحدہ   کی طرف سے   پاکستان سمیت دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتاہے  ۔ اس دن   حکومت سمیت ، سول سوسائٹی اور دنیا بھر کا میڈیا    خواتین کو معاشرے میں با اخیتار بنانے کیلئے تجدید عہد کرتانظر آتاہے ۔ دنیا میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے   کئی تحریکیں شروع ہوئیں اور  ہر تحریک نے  اس حوالے سے کچھ نا کچھ کردار  ضرورادا کیا ۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ  کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار وہاں کے محروم اور پسے ہوئے طبقے کو   با اختیار کرنے اور مساوی حقوق و  مواقع فراہم کرنے میں ہی مضمر ہے۔  جیسا کہ   معروف سماجیات کے ماہر فورئیر نے کیا خوب کہا تھا کہ  کسی بھی سماج کی ترقی و خوشحالی کا  اندازہ  اس سماج یا معاشرے میں رہنے والی خواتین کی حالت و کیفیت سے   لگایا جا سکتا ہے۔  اسی طرح بالشوک کے  انقلابی  راہنما ولادیمیر لینن  نے کہا تھا کہ    ہماری  محنت کش  اور مزدور خواتین  بہترین  طبقاتی جنگجو ہیں اور  دنیا کی کوئی بھی تحریک خواتین کی شعوری اور عملی مداخلت کے  بغیر کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی ہے۔   مارکس اور اینگلز کے مطابق   طبقاتی         سماج میں پیداوار، پیدا کرنے والے پر غالب ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے  معاشرے کی تشکیل میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور معاشرے میں  اپنے مثبت کردار کیلئے کئی تحریکوں میں کامیاب کردار  کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔  خواتین کی جہد مسلسل اور انتھک   کوششوں کے نتیجے میں  1910 میں  ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگ میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس  منعقد ہوئی جس میں  تقریبا" 17 مختلف ممالک کی سو کے قریب  خواتین  نے شرکت کی اور    اس دن کو عورتوں کے حقوق ، ان پر ہونے والے مظالم اور استحصال  کے خاتمے  کے عنوان سے عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔  اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ خواتین پاکستان میں  تقریبا" آبادی کانصف ہیں  اور ان کی حالت زار طبقاتی  فرق، جاگیردارنہ نظام، غیر منصفانہ  اقتصادی نظام ، رجعت پسند  دینی طبقے کی بدولت  قابل رحم نظر آتی ہے۔  ایک سماجی تنظیم کی طرف سے کیے گئے محتاط سروے کے مطابق  پاکستان میں اس وقت  لگ بھگ 43 فیصد  دیہی خواتین  زرعی کام کاج کے عمل سے وابستہ ہیں اور کھیتوں میں ہونے والی سر گرمیاں انہی خواتین کی بدولت  ہی سر انجام پاتی ہیں ۔  جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع میں تقریبا" 12 لاکھ کے  نزدیک  خواتین کا م کرتی ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق   کوئی 25 فیصد کےقریب   خواتین کھیتوں میں فیملی ورکرز کی حیثیت سے کا م کرتی ہیں  جبکہ ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا ۔  پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں خواتین کو  اپنے روز مرہ کے کام کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور عورتوں پر ہونے والے تشدد کی داستانیں کبھی کبھار میڈیا  یا سول سوسائٹی کے توسط سے عام و خاص کے علم میں آ جاتی ہے  ورنہ ہزاروں داستان   چار دیواری کی اند ر ہی مدفن ہو جاتی ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کے ایک بہت ہی تاریک اور   شرمناک پہلو  کی عکاسی کرتاہے۔  گھریلو تشدد اور    جنسی طور پر خواتین کو  ہراساں کرنا ہمارے معاشرے مٰیں  کو ئی بڑا جرم نہیں ہے۔  اسی طر ح غیرت کے نا م پر قتل کرنا  بھی ایک عام سا عمل ہے۔ روزنامہ نوائے وقت کی  انسانی حقوق کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال   اندازا" 500 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔  سمینار میں شریک  امریکہ کی  ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی  کے  ماہر صحت ڈاکٹر معظم نصراللہ کے مطابق  پاکستان میں پچھلے  چار برس کے   دوران 1957 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔     اسی طرح  گذشتہ ہفتے  لاہور میں  جوہر ٹاؤن   کی رہائشی   عورت نے غربت ، اپنے شوہر اور  سسرال کے رویے سے تنگ آ کر اپنے دو بچوں کو قتل کر دیا اور ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہو ا کہ اس کا  شوہر  اپنی بیوی سے جسم فروشی کروانا چاہتا تھا اور دبئی میں ثقافتی طائفے میں بھیجنا چاہتا تھا  تاکہ  وہاں سے جسم فروشی کی بنا پر بھاری رقم وصول کر پائے۔  یہ ہے وہ ہمارا سماجی شرمناک چہرہ ہے ۔   پاکستان میں عورتوں کے حقوق  کا مسئلہ ہمیشہ  ہی   نظر انداز رہا ہے اور عورت پر تشدد  ہماری غیرت اور انا   کا  مسئلہ رہا ہے  لیکن پاکستان میں عورتوں کے حقوق پر  بڑی قدغن    ضیاء الحق کے دور آمریت میں  پوری طرح لگائی  گئی اور  نام نہاد آمر نے  اسلام کے مقدس نام کو استعمال کر تے ہوئے  انسانیت سوز کالے قوانین مرتب کئے ۔ ضیاء الحق کی  فرسودہ اور رجعت پسند  پالیسیوں نے پاکستان کے سماجی و ثقافتی  اقدار کو  نہ صرف گھاہل کیا بلکہ   بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا۔ آج کی موجودہ حکومت جو کہ پاکستان کے روشن خیال  حلقے کی نظر مٰیں     ضیاء الحق کی وارث  سمجھی جاتی ہے     ایک بار پھر رجعت پسند، عورتوں کے حقوق کو پامال کرنےوالی اور ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے والی قوتوں کے ساتھ  مصروف مزاکرات ہے۔   کون نہیں جانتا کہ  یہ نام نہاد  مجاہدین اور رجعت پسند طالبان  کس طرح   افغانستان اور پاکستان کے بیشتر علاقوں میں انسانیت سوز کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں  اور  کس طرح خواتین کے مسلمہ حقوق کو سلب کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ سوات ، مالاکنڈ، خیبر ، کرم   ایجنسی  اور خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں ، ہسپتالوں کو دھماکوں سے  تباہ  کیا  ، عورتوں کو  چار دیواری  میں مقید کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر علم کے دروازے بند کئے اور خود ساختہ شریعت کی آڑ میں شرعی حد نافذ کرتے رہے ہیں سب  کالے کرتوت  آج  بھی  پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر  موجو د ہے۔ آج جب کہ پوری دنیا عورتوں کے حقوق اور سماج میں ان کے جائز  معیار کے حصول کیلئے  عہد کر رہی ہے جبکہ ہم ان  عہدون پیماء کے برعکس  طالبان  کی شریعت  کے نفاذ کو عملی شکل دینے کے لئے محو گفتگوہے۔

Wednesday, March 5, 2014

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

چند دن قبل اسلام آباد  کے سیکٹر ایف 8 کے سیشن کورٹ  کے احاطے میں ہونے والے خودکش حملے اور شدید فائرنگ  سے میڈیا رپورٹ کے مطابق  11 افراد  شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ۔ اس فائرنگ کے نتیجے  میں  شہید ہونے والے میں اعتدال پسند اور بہادر  ایڈیشنل  سیشن جج  رفاقت احمد اعوان  جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا ۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق  اس فرض شناس جج کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے   لال مسجد کیس  میں  عبدالرشید   غازی کے بیٹے کی درخواست جو کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف تھی کو مسترد کر دیا تھا  ۔  اور  حق اور سچ کے اصول پر کیا جانے والے  فیصلے  کی بنا پر   شاید جج صاحب نے  سمجھا ہو گا کہ سچ بولنا اس مملکت  خدا داد میں کوئی جرم نہیں ہے  ۔ ہاں جج  صاحب کو  وزیر داخلہ کی وہ  پریس کانفرنس   بھی یاد ہو گی جو چند دن قبل کی گئی  جس کے مطابق  اسلام آبا د  ایک محفوظ شہر ہے  اور شہر میں   امن و آتشی  کا طوطی بولتا ہے  ۔ لیکن  ہو ایہ  کہ  اس  فرض شناس جج کو  دن دیہاڑے    اپنا فرض  نبھاتے ہو ئے اسلام آباد کچہری میں بے دردی کے ساتھ  شہید کر دیا گیا۔   اسی حملے کی زد میں ملالہ کے دیس میں بسنے والی  ایک اور ملالہ   آئی  اور ان درندوں کی سفاکی کا نشانہ بنی مگر اس بار یہ ملالہ جس کا نام  فضہ تھا وہ  اپنی جان کی بازی ہار گئی ۔  پاکستان کی یہ  بہادربیٹی  جس نے  ایک سال قبل  اسلام کے ایک ادارے  سکول آف لاء سے  ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی  اور  جس  کی آنکھوںمیں سنہرے مستقبل  کے حسین خواب   سجے تھے ۔  جو کہ برطانیہ کی    یونیورسٹی آف نارتھ کمبریا  سے انٹرنیشنل   سٹڈی میں میں ماسٹر کرنے کا ارادہ رکھتی تھی  ۔ فصہ نے پنجاب با ر کونسل کی رکنیت  کیلئے  اپلائی بھی کر رکھا تھا۔  فضہ جو  دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی جس کے دونوں بھائی دوبئی ہو تے ہیں جبکہ فضہ اپنی  امی ابو کے ساتھ  پاکستان میں رہتی تھی  ۔اپنے ماں باپ    کا خیال رکھنے والی  فضہ  اب جہان فانی کو آباد کر چکی ہے۔ لیکن   ابھی تو ٖفضہ کو   اپنے  مستقبل   کی روشن راہوں کا انتخاب کرنا تھا ۔ ابھی تو اسے  اپنے ماں باپ کے سپنوں کی تکمیل کرنی تھی ، ابھی تو  اس نے جوانی کی دہلیز پے قدم ہی رکھا تھا، ابھی تو  اسے اپنی  سہیلیوں کے ساتھ  اٹکیلیاں  کرنی تھی ،  ابھی تو اسے   زندگی کے پر لطف لمحات  سے   مسرور ہونا تھا ، ابھی تو اسے اپنے سب اودھورے  سپنے پورے کرنے تھےجو  اس  نے اپنی حسیں آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔  ابھی تو اسے پاکستان کے روشن چہرے کا جھومر بننا تھا ، ابھی اپنے شاندار کیرئیر    کی  پگڈنڈیوں پے  سفر کرنا تھا۔  لیکن  فضہ کو کیا معلوم تھا کہ  اس کا پیارا پاکستان مجاہدین کا ملک بننے جا رہا ہے  حکومت وقت تو ان مجاہدین کے ساتھ مصروف  مزاکرات ہے  تھا  جہاں شریعت کے نفاذ کی         تیاریاں ہو رہی ہیں  جہاں فضہ جیسی  عظیم بیٹیوں  کی تعلیم حاصل کرنا ، جہاں  ایسی شجاع  بیٹیوں کے سکولوں اور کالجوں کو  دھماکوں سے اڑا  دینا    ان مجاہدین کے کیلئے عظیم   جہاد ہے ۔ جہاں  پولیو جیسی موذی مرض سے   معصوم بچوں کی زندگیوں  کو بچانے والی  عظیم ملالووں اور فضاووں پے  حملے کرنا   عین اسلام  کی خدمت ہے ۔  جہان ان مجاہدین  کی  حملوں کو شرعی  جواز فراہم  کرنے کیلئے    جناب منور حسن اور     مولانا   فضل الرحمان  جیسے  علماء  ہم وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔  جہان عمران خان جیسے سیاستدان  ان مجاہدین کو  مذہبی وزارتیں دینے جیسے مطالبات  پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ ابھی یہ آگ لگی رہے گی ابھی اور میرے وطن کی  فضاوں کو اپنے لہو سے  قربانی پیش کرنی ہو گی ۔  ابھی      پاک وطن کے بیٹوں اور بیٹیوں کو    اور جانیں دینی ہونگی ابھی   انتظار کرنا ہو گا  اور لہو کا کیونکہ  مزاکرات  مزاکرات چل رہاے۔   ان تاریک راہوں  پے میرے ہم وطنوں کو چلنا ہے ابھی  اور مقتل  گا ہیں سجانی  ہیں  ابھی شریعت کا نفاد ہو نا باقی ہے ، ابھی مقتل گاہ سے فضہ جیسی معصوم  روحیں  بقول فیض احمد فیض یہی پکار رہی ہو نگی

 ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم،
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے،
تیرے ہاتوں‌کی شمعوں کی حسرت میں ہم،
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے